سعودی عرب اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا ثقافتی تبادلہ، ریاض کے انٹرنیشنل بُک فیئر میں مرکزِ نگاہ رہا جہاں اشاعتی اداروں اور تقریب میں آنے والے دیگر افراد میں چین سے تعلق رکھنے والوں لوگ نمایاں تعداد میں موجود تھے۔
اس سال کی تقریب میں سعودی اور چینی اشاعتی اداروں کے درمیان ’ٹریڈنگ رائٹس‘ پر مشتمل ایک خصوصی سیشن توجہ کا خاص مرکز تھا۔ دونوں جانب سے ناشروں نے باہمی تعاون بڑھانے اور ادبی اور کاروباری تعلقات کو مضبوط کرنے کی راہیں تلاش کیں۔
ریاض کے بک فیئر کی جاذبِ نظر چیز ’رِیڈ چائنا‘ پویلین ہے جو جوش و خروش سے بھرپور مقام بنا ہوا جہاں چینی زبان کی کتب کا عربی ترجمہ موجود ہے۔
اس پویلین کا سٹاف چینی نمائندوں پر مشتمل ہے جنھیں عربی بولنے میں عبور حاصل ہے۔ اس بُوتھ میں آنے والوں کو زبان کا ایک قابلِ توجہ اور ثقافتی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔
پویلین آنے والوں میں تئو روپینگ شامل تھے جو چینی مسلمان ہیں اور جنھوں نے اپنا تعارف اپنے عربی نام ’غیث‘ سے کرایا۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے سعودی عرب کی، چینی ثقافت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی میں بہت خوشی کا اظہار کیا۔
’ریاض بک فیئر، سعودی عرب اور چین کے درمیان ثقافتی تبادلے کا ایک اہم موقع ہے۔ ہم یہاں صرف کتابیں فروخت کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہمارا مقصد سعودی لوگوں سے بات چیت کرنا ہے۔ دیکھ لیں، یہاں چینی ادب اور زبان کو سیکھنے میں دلچپسی لینے والوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پویلین آنے والے بیشتر افراد چینی زبان کو سیکھنے سے متعلق کتابوں کے بارے میں بالخصوص دلچسپی لے رہے ہیں جس سے سعودی عرب کی چینی ثقافت اور تعلیم میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔‘

ریاض بک فیئر 11 اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اس میں ’سینٹر فار ریسرچ اینڈ انٹرکمیونیکیشن نالج‘ ایک ثقافتی سیمینار کی میزبانی کرے گا جس میں مشہور چینی ناولسٹ مائی جیئا پر خاص طور پر گفتگو ہوگی جو عصری چینی ادب کی ایک نمایاں آواز ہیں۔
اس سیشن میں انھوں نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں شرکا کے ساتھ باتیں شیئر کیں اور بتایا کہ’ ترجمے کی وجہ سے ان کا کام کس طرح دنیا بھر میں پڑھنے والوں تک پہنچ چکا ہے اور ان سے جُڑ چکا ہے۔‘
انھوں نے عربی ادب میں ناول کے کردار پر بات کی اور اسے تاریخ کا آئینہ، شناخت اور مشترک انسانی تجربہ قرار دیا۔
