پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے بڑے پلیٹ فارم کے صارفین کو دو روز سے ٹرانزیکشن کے دوران مشکلات کا سامنا ہے۔ رقوم کی عدم منتقلی، ایک ہی ٹرانزیکشن کے متعدد پیغامات موصول ہونا اور بعض اوقات کٹوتی کے باوجود رقم کا نہ پہنچنے کی شکایات آئی ہے۔ بظاہر یہ ایزی پیسہ ایپ کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے لیکن ایزی پیسہ انتظامیہ اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور ان کے مطابق یہ مسئلہ ملک میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے باعث عارضی نوعیت کا ہے۔
متعدد صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایزی پیسہ کے ذریعے ادائیگی کرنے کے بعد رقم ان کے اکاؤنٹ سے تو کاٹ لی گئی لیکن دوسرے فریق تک نہیں پہنچی۔
’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے موبائل پر ٹرانزیکشن کامیاب ہو گئی ہے، اس لیے 15 ہزار روپے دے دیے۔ لیکن جب اکاؤنٹ ہسٹری چیک کی تو وہ رقم تھی ہی نہیں۔ اُس وقت لگا جیسے زمین کھسک گئی ہو۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز میں تاخیر کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟Node ID: 895188
فیصل علی خان، جو پچھلے آٹھ سال سے ایزی پیسہ وینڈر کے طور پر کام کر رہے ہیں، اپنے چہرے پر بے بسی کے تاثرات لیے بتا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ پچھلے کچھ دنوں میں کئی بار ایسے مواقع آئے جب ٹرانزیکشن کامیاب دکھائی دی لیکن درحقیقت رقم منتقل ہی نہیں ہوئی۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک نوجوان نے انھیں کہا کہ اسے 15 ہزار روپے کیش کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے نوجوان نے اُن کی دکان سے وائی فائی کنیکٹ کیا اور رقم ٹرانسفر کر کے اپنے موبائل کی سکرین ان کو دکھائی، انھوں نے تسلی کی کہ رقم ان کے ہی نمبر پر ٹرانسفر ہوئی ہے۔ یوں انھوں نے لڑکے کو 15 ہزار روپے دے دیے۔
بعد ازاں انھوں نے اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشن ہسٹری میں جا کر دیکھا تو اس میں وہ ٹرانزیکشن موجود نہیں تھی۔ انھیں شک گزرا تو انھوں نے باقی ٹرانزیکشن پر بھی نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ ایک دن میں کم از کم پانچ ٹرانزیکشن ایسی تھیں جن کے بارے میں انھوں نے تسلی کی تھی لیکن دراصل وہ رقم ٹرانسفر نہیں ہوئی تھی۔

اب انھیں شک گزرا کہ ان کے ساتھ کسی نے فراڈ کیا ہے لیکن ان کا یہ شک جلد ہی دور ہو گیا جب ان کے وہ گاہک لوٹ کر ان کے پاس واپس آئے جنھوں نے ان کے ذریعے رقوم بھجوائی تھیں لیکن جہاں بھجوائی تھیں ان کو موصول نہیں ہوئی تھیں۔ تب جا کر انھیں معلوم ہوا کہ یہ فراڈ نہیں بلکہ ایزی پیسہ ایپ میں مسئلہ ہے۔
فیصل نے بتایا کہ ’ایک دن میں پانچ ٹرانزیکشنز ایسی ہوئیں جن میں سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا، مگر جب میں نے ہسٹری چیک کی تو وہ ریکارڈ میں موجود ہی نہیں تھیں۔ شروع میں مجھے لگا شاید کسی نے میرے ساتھ فراڈ کیا ہے، لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ مسئلہ کسی فرد سے نہیں بلکہ خود ایپ کے اندر ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب وہ ہر ٹرانزیکشن کے بعد کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں اور پھر جا کر تصدیق کرتے ہیں کہ رقم واقعی پہنچی ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ’ایزی پیسہ پر ہمارا کاروبار چلتا ہے، مگر اب دل میں خوف بیٹھ گیا ہے، پتا نہیں ٹرانزیکشن ہوئی بھی ہے یا نہیں؟'
نوخیز احمد ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتے ہیں جہاں ان کے پاس اکثر مزدور پیشہ افراد آتے ہیں اور بعض اوقات بل کی ادائیگی ایزی پیسہ کے ذریعے کرتے ہیں۔ ایک ہی دن میں دو تین گاہکوں نے واپس آ کر ان سے استفسار کیا کہ انھوں نے غلطی سے دو بار انھیں ادائیگی کر دی ہے۔

نوخیز احمد نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ انھیں ان ٹرانزیکشنز کے دو دو تین تین میسیجز موصول ہوئے تھے تو انھوں نے اپنے گاہکوں کی بات کو درست جانتے ہوئے انھیں یہ ادائیگیاں کر دیں۔ تاہم بعد ازاں انھیں ٹرانزیکشن ہسٹری چیک کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک ہی ٹرانزیکشن کے متعدد میسیجز کی وصولی دراصل ایزی پیسہ ایپ کا مسئلہ تھا نہ کہ ڈپلیکیٹ ٹرانزیکشن کا یوں ایک ہی دن میں وہ کم از کم اتنی رقم سے محروم ہو چکے تھے کہ جتنی وہ ایک دن میں بطور منافع کماتے ہیں۔
نوخیز احمد کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے کاروباری کے لیے ایک دن کا منافع ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ ’ہم روز کے منافع پر چلتے ہیں، بڑے تاجروں کی طرح ذخیرہ نہیں رکھتے۔ اس دن جو نقصان ہوا، وہ میری ایک دن کی کمائی کے برابر تھا۔ ایسے میں ہم ایپ پر بھروسہ کیسے کریں؟‘
راولپنڈی کے ایک سرکاری ملازم امجد علی بھی اسی نوعیت کے مسئلے سے دوچار ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں اپنے تمام یوٹیلیٹی بلز، بچوں کی فیس اور دیگر ادائیگیاں ایزی پیسہ سے کرتا ہوں۔ لیکن پچھلے ہفتے تین بار ایسا ہوا کہ ٹرانزیکشن کامیاب دکھا رہا تھا، مگر نہ میرے اکاؤنٹ سے رقم کٹی اور نہ ہی سامنے والے کو ملی۔ ایک بار تو پیسے کٹ بھی گئے لیکن جہاں پہنچنے چاہییں تھے وہاں نہیں پہنچے۔‘ ان کے مطابق جب انھوں نے کسٹمر سروس پر رابطہ کیا تو ہمیشہ کی طرح یہی کہا گیا کہ ’ہماری ٹیم دیکھ رہی ہے‘ مگر کوئی واضح جواب یا واپسی کی تاریخ نہیں دی گئی۔
امجد علی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک عام شہری کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ جب آپ اپنی رقم ڈیجیٹل نظام کے حوالے کرتے ہیں تو آپ کو اس پر اعتماد ہونا چاہیے۔ اگر یہی نظام غیر یقینی دکھانے لگے تو پھر نقدی ہی بہتر لگنے لگتی ہے۔‘

اس حوالے سے ترجمان ایزی پیسہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی خدمات معمول کے مطابق جاری ہیں اور کسی قسم کی خرابی یا تعطل کا سامنا نہیں۔
ترجمان کے مطابق ’ایزی پیسہ کی سروسز معمول کے مطابق جاری ہیں اور کسی قسم کا اثر یا تعطل پیش نہیں آیا۔ موبائل انٹرنیٹ کی سروسز کی بندش کے باعث بعض اوقات عارضی تاخیر یا رکاوٹ ہو سکتی ہے، تاہم یہ کوئی ایزی پیسہ سے متعلق مخصوص مسئلہ نہیں۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک میں موبائل بینکنگ اور ای والٹ صارفین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مالی سال 2024 کے اعداد وشمار کے مطابق صرف ایک سال میں ڈیجیٹل لین دین کی مالیت 26 کھرب روپے سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ موبائل بینکنگ صارفین کی تعداد 9 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ایزی پیسہ اور جاز کیش دو بڑے پلیٹ فارم ہیں جو مجموعی موبائل ٹرانزیکشنز کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ سنبھالتے ہیں۔