’ایک تو ہمارے والد اور بھائی دھماکے میں مارے گئے اور اوپر سے لاشیں دینے کے لیے پیسے مانگے گئے۔‘ یہ الزام نیاز محمد بڑیچ نے لگایا ہے جن کے والد حاجی نور محمد اور بھائی صابر خان 30 ستمبر کو کوئٹہ کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں فرنٹیئر کور بلوچستان کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والے خودکش حملے میں جان سے گئے۔
سول ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اگر کسی اہلکار کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
پولیس کے مطابق اس حملے میں 11 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں کوئٹہ کی مسلم اتحاد کالونی کے رہائشی 85 سالہ حاجی نور محمد اور ان کے سب سے چھوٹے بیٹے صابر خان بھی شامل تھے جو موٹر سائیکل پر وہاں سے گزر رہے تھے۔
مزید پڑھیں
اہلخانہ کے مطابق 21 سالہ صابر کی شادی محض ڈیڑھ برس پہلے ہوئی تھی اور ان کے ہاں ڈیڑھ ماہ قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔
صابر کے بھائی نیاز محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ باقی بھائی الگ جبکہ صابر والدین کے ساتھ رہتا تھا اور ان کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے والد کا سب سے پیارا تھا۔
نیاز محمد کے مطابق صابر کم عمری کے باوجود گھر کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بیٹریوں کی ایک دکان پر مزدوری کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’دھماکے والے دن والد اور بھائی صبح گھر سے نکلے تھے۔ رات تک واپس نہ آئے تو والدہ پریشانی کی حالت میں ہمارے گھر آئیں کہ صابر اور والد ابھی تک گھر نہیں پہنچے۔‘
’اس کے بعد ہم نے ان کے موبائل پر کال کی تو وہ بھی بند جا رہے تھے۔ ہم نے کافی تلاش کیا لیکن کچھ پتہ نہیں چلا، اس کے بعد ہم نے ہسپتالوں کا رخ کیا۔ جب میں سول ہسپتال کے مردہ خانے پہنچا وہاں کئی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، ان سے کفن ہٹا کر دیکھا تو والد اور صابر ایک ساتھ پڑے تھے۔‘
نیاز محمد کے مطابق ’ان کے جسم تک سلامت نہیں تھے، بھائی کی آنکھیں ضائع ہو چکی تھیں، ٹانگ کٹ چکی تھی، جسم جل چکے تھے۔ ہم صدمے سے سنبھل نہیں پا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صدمہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ جب لاشوں کی حوالگی کا عمل شروع ہوا تو ایک شخص آیا اور کہا کہ 35 ہزار روپے دیے بغیر لاشیں نہیں ملیں گی۔‘
نیاز محمد کے مطابق ’وہ اور ان کے بھائی حیران رہ گئے ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ رقم کس بات کی مانگ رہے ہیں۔ ہم نے اس شخص سے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اتنی رقم نہیں۔ ہم نے رشتہ داروں سے چندہ کیا اور آخرکار 16 ہزار روپے دے کر لاشیں حاصل کیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم شدید صدمے میں تھے اس لیے ہم نے بحث نہیں کی۔ ہمارے ہاتھوں میں صبح گھر سے زندہ سلامت نکلنے والے باپ اور بھائی کی جلی اور کٹی ہوئی لاشیں تھیں اور اوپر سے ہسپتال کے عملے کا یہ رویہ، یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
نیاز محمد کا کہنا تھا کہ وہ رقم لینے والے شخص کو نہیں جانتے کیونکہ اس نے اپنی شناخت نہیں بتائی لیکن سامنے آنے پر وہ اس شخص کو پہچان لیں گے۔
’ہمارے گھر کا سکون چھن گیا ہے‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد سے ماں کی حالت بہت خراب ہے، انہیں غشی کے دورے پڑ رہے ہیں جبکہ گھر میں صرف ڈیڑھ ماہ کی بھتیجی جو ابھی تک اپنے باپ کو پہچان ہی نہیں پائی تھی، یتیم ہو گئی۔ ہمارے گھر کا سکون چھن گیا ہے۔
حاجی نور محمد کے بھانجے محمد ظریف بڑیچ کا کہنا ہے کہ معلوم نہیں یہ کون ظالم لوگ ہیں جو یہ نہیں سوچتے کہ ان دھماکوں سے کتنے بے گناہوں کے گھر اجڑ رہے ہیں۔ ہمارے ماموں کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمارے لیے یہ بڑا صدمہ تھا، اس کے بعد ہمیں دوسرا صدمہ حکومتی رویے سے لگا۔ اب تک خاندان سے تعزیت کرنے کوئی وزیر، رکن اسمبلی نہیں آیا؟ کوئی پوچھنے نہیں آیا۔
’ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ لوگ کیسے لوگ ہیں جو شہید ہونے والوں کے گھر والوں سے بھی پیسے مانگتے ہیں۔ ہمیں کہا گیا کہ پیسے نہ دیے تو لاشیں نہیں ملیں گی۔ یہ الفاظ ہمارے لیے دوہری اذیت کا باعث بنے۔‘
محمد ظریف بڑیچ نے بتایا کہ لاشوں کو گھر پہنچانے کے لیے فلاحی تنظیم کی ایمبولینس سروس نے بھی رقم طلب کی۔ ’حکومت کا کام تھا کہ دکھ اور غم کی اس گھڑی میں شہدا کے اہلخانہ کی مدد کرتی مگر الٹا ہمیں لاشوں کے لیے بھی پیسے دینے پڑے۔‘

’والدہ کا ہی شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا‘
نیاز محمد کے مطابق ان کے والد گذشتہ کئی ماہ سے نادرا کے دفاتر کے چکر لگا رہے تھے کیونکہ خاندان کے ریکارڈ میں نامعلوم شخص کا اندراج کیا گیا تھا، جس پر والد نے نادرا میں شکایت درج کرائی تھی۔ لیکن شکایت کا ازالہ کرنے کی بجائے والدہ کا ہی شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’والد ہر بار شکایت کے ازالے کے لیے ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھیجے جاتے۔ دھماکے کے دن بھی وہ اسی مقصد کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ان کے ساتھ تمام شناختی دستاویزات اور کاغذات بھی گم ہو گئے یا پھر جل گئے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ لاشوں کی حوالگی کے عوض رقم طلب کرنے کے الزامات کی اعلٰی سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ٹیم نے متاثرہ خاندان کے گھر کا دورہ بھی کیا۔
’لاشوں کی حوالگی پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے‘
سول ہسپتال کوئٹہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ہادی کاکڑ نے اردو نیوز کوبتایا کہ ہم نے متاثرہ خاندان سے متعلقہ شخص کی نشاندہی کی اپیل کی ہے اور ان سے رابطے میں ہیں، تاہم اب تک ان کا کوئی نمائندہ ہسپتال نہیں آیا۔
انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کا ریکارڈ بھی جانچا جا رہا ہے لیکن تاحال شواہد نہیں ملے۔
’متاثرہ خاندان نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ یہ رقم کس نے لی اور کس مد میں لی؟ وہ صرف نشاندہی کریں ہم پوری تحقیق کریں گے اور ثابت ہونے پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ایسی بے حسی ناقابلِ برداشت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کی حوالگی ہسپتال عملے کا نہیں بلکہ پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس عمل میں فلاحی تنظیم بھی شامل ہوتی ہے۔ ہسپتال کا عملہ صرف تابوت وغیرہ کا بندوبست کرتا ہے۔

ڈاکٹر ہادی کاکڑ کے مطابق ’اس وقت ہمارے پاس تابوت کے لیے فنڈز موجود نہیں تھے جس پر ضلعی انتظامیہ نے تعاون کرتے ہوئے تمام شہدا کے لیے تابوت فراہم کیے۔ یہ مکمل طور پر مفت فراہم کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے کوئی رقم نہیں لی جاتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ روز دھماکے میں زخمی ہونے والا ایک شخص زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا، جس کی میت کو قلات تک پہنچانے اور تابوت کا انتظام بھی سرکاری خرچ پر کیا گیا۔