سعودی ڈیزائنرز جن کے لیے کھجور کے درختوں کی ڈوریاں اور دھاگے ’داستان گوئی‘ سے کم نہیں
جمعرات 16 اکتوبر 2025 8:22
الاحسا کے صحرا کے وسط میں جہاں نخلستان سے سر اٹھاتے ہوئے کھجوروں کے اونچے اونچ درخت، دُور افق کو چھوتے نظر آتے ہیں، وہاں سعودی تخلیق کاروں کی ایک نئی نسل الخوص کی بُنائی کو دوبارہ منظرِ عام پر لا رہی ہے۔
’الخوص ریزیڈینسی‘ میں 3 سے 14 اکتوبر تک سعودی فنکار اور ڈیزائنر اکٹھے ہوئے تاکہ اس بات کا تفصیلی جائزہ لے سکیں کہ کھجور کے درخت کو کام میں لا کر اس سے کی جانے والی روایتی بُنائی، موجودہ دور کے فنِ تعمیر اور ڈیزائن کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔
جس ہنر کو کبھی قدرے حقیر سمجھ کر محض ضرورت کی وجہ سے اختیار کیا جاتا تھا، آج آرٹ، ڈیزائن اور فنِ تعمیر میں اُس نے نئے معانی تلاش کر لیے ہیں اور ورثے اور مستقبل کے درمیان ایک پُل کا کام کر رہا ہے۔
ماہرِ فنِ تعمیر اور ڈیزائنر عبیر صیقلی کے لیے، الخوص صرف ایک ہنر نہیں بلکہ انسانیت اور فطرت کے مابین ایک مکالمہ ہے۔ یہ خود کھجور کے درخت سے نسل در نسل منتقل ہونے والا اور تشکر کا ایک آہنگ ہے۔
عبیر صیقلی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الخوص کی بُنائی کھجور کے درخت سے جنم لیتی ہے۔۔۔ اُس درخت سے جو سعودی عرب کے قدرتی اور ثقافتی منظر نامے کی تعریف متعین کرتا ہے۔۔۔جس کے دل میں اِس زمین کی یاد بسی ہوئی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’اس درخت کے ہر ٹکڑے کا کوئی نہ کوئی کام ہے۔ ہر ٹکڑا کسی نہ کسی چیز کا علم رکھتا ہے۔ اس سے بُنائی کرنا دراصل شکر گزاری کا ایک عمل ہے۔ کسی نہ کسی چیز میں صورت بدل کر یہ ہمارے سامنے رہتا ہے، ہمیں خوشی دیتا ہے، ہماری خدمت کرتا ہے اور یوں اس درخت کی عمر لمبی سے لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔‘

عبیر کا طریقہ الخوص کی روح کو مجسم کر دیتا ہے جس سے ہاتھ اور زمین کے درمیان حسنِ ترتیب اور مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔
ان کے بقول ’کاریگر، ماہرِ تعمیرات، کاشتکار۔۔۔ سب اپنے اپنے ہاتھوں کو استعمال میں لا کر ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ آہنگ کے اس مجموعے کو دیکھنے کا مطلب انسان اور زمین کے بیچ توازن کو تلاش کرنے کے مترادف ہے۔۔۔ یہ عمل کام اور عبادت سے نئی واقفیت کے ہم پلہ ہے۔‘
میساء شلدان فنکار اور محقق ہیں۔ ان کے لیے الخوص کی ڈوریوں، ریشوں اور دھاگوں میں صرف خوبصورتی نہیں بلکہ یہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔۔۔ ان میں ایک یاد بسی ہوئی ہے۔
ان کا ایک پروجیکٹ ’الخوص میموری: خاموش تہذیب‘ یہی جاننے کی کوشش ہے کہ بُنائی کس طرح یاد آوری کی ایک شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
’اس کی ڈوریوں کے اندر صدیوں کا سُکوت بسا ہُوا ہے، بیتے زمانوں کے ہاتھوں کی یاد ہے۔ وہ ہاتھ جنھوں نے صبر اور آہنگ سے دنیا کو ایک نئی چیز دی۔ الخوص بُنائی اصل میں یاد کرنے کا ایک عمل ہے جہاں مختلف زمانے باہم مل جاتے ہیں اور پھر ایک فیبرک کو جنم دیتے ہیں جو کبھی کھو نہیں سکتا۔‘

شلدان کہتی ہیں ’یہ ہنر اصل میں آفاقی زبان ہے جو ثقافتوں کے دوش پر سوار ہو کر بہت آگے نکل جاتی ہے۔ جہاں بھی یہ بُنائی ہوگی، کھجور کے درخت سے نکلا ہُوا آہنگ کا جانا پہچانا مجموعہ ایک ہی طرح کی نغمگی کے ساتھ سنائی دے گا۔‘
شلدان کے نزدیک سعودی عرب میں فن اور ڈیزائن کا بڑھتا ہوا رجحان، کھجور کے درختوں سے نکلی ڈوریوں اور دھاگوں کے فن کو محفوظ کرنے کی زرخیز زمین ہے۔
جنی ملائکہ ایک فنکار اور ڈیزائنر ہیں جنھوں نے ریسیڈینسی میں ’پام سکیپس ‘ پیش کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’میں الخبر میں پیدا ہوئی تھی جہاں ہر طرف کھجوروں کے درخت ہی درخت تھے۔ لیکن جب میں تعلیم کے لیے باہر نکلی تو تب میں نہیں انھیں غور سے دیکھنا شروع کیا۔‘

فوٹی گرافی، میٹیریل کے ساتھ تجربات اور کھجور کے تنے سے بنے ہوئے کاغذوں کو استعمال کر کے ملائکہ کھجور کے درخت کی نئی تشریح کرتی ہیں اور اسے سنبھلنے اور کامیاب ہونے اور یاد کی ایک علامت قرار دیتی ہیں۔ ’میرے نزدیک ڈیزائن، داستان گوئی کی ایک شکل ہے۔ فوٹی گرافی سے پرنٹنگ تک اور پھر کاغذ بنانے تک، اس کام کا ہر مرحلہ مجھے کھجور کے درخت کو اچھی طرح سمجھنے کے قریب لایا ہے۔‘
نوجوان فنکاروں کے لیے ان کا پیغام سادہ سا ہے۔ ’مجھے امید ہے ’پام سکیپس‘ نئے فنکاروں اور ڈیزائنرز کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر چلیں۔۔مشاہدہ کریں، سوال کریں اور پھر اپنے ارد گرد کے ماحول سے جُڑ جائیں۔‘
الاحسا سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت ایک ثقافتی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ الخوص کی روایت کا تازہ ہونا یا اس کا احیا، مملکت کی اپنی ترقی کا ایک استعارہ ہے جس کی بنیاد اگرچہ روایت پر ہے لیکن اس کا راستہ جدت کی طرف جا نکلتا ہے۔