پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات، ناکام ہوئے تو کُھلی جنگ ہو گی: وزیر دفاع
اتوار 26 اکتوبر 2025 6:17
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کو دیرپا بنانے کے لیے دونوں ممالک ترکیہ میں مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی تو پھر ’صورت حال کھلی جنگ کی طرف جا سکتی ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق استنبول میں ہونے والی بات چیت میں شریک مذاکرات کاروں سے امید کی جا ہی ہے کہ وہ دوحہ میں طے پانے والے جنگ بندی کے ’طریقہ کار‘ کے حوالے سے مزید تفصیل دیں گے جس سے صورت حال بہتری کی طرف جائے گی۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سنیچر کو سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’استنبول میں مذاکرات جاری ہیں، تاہم اب اگر ان کا مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہو گی۔‘
ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس میں شامل مذاکرات کار کہاں پر ملاقات کریں گے اور یہ بات چیت کتنی دیر تک جاری رہے گی۔
افغانستان کے وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ حاجی نجیب کر رہے ہیں تاہم اسلام کی جانب سے ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کو بات چیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ سکیورٹی سے متعلق مسائل ہیں۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا الزام اسلام آباد نے بارہا اپنے ہمسائے افغانستان پر عائد کیا ہے کہ ’وہ ایسے گروپس کو پناہ‘ دیتا ہے جن کو وہ ’دہشتگرد‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔
دوسری جانب کابل ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے۔
لڑائی کے دوران بھی اسلام آباد طالبان حکام سے افغان سرزمین پر موجود جنگجوؤں کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا۔
افغانستان میں مقیم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ کار ابراہیم باہیس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نقطہ نظر کے مطابق یہی استنبول مذٓاکرات کا مرکزی نکتہ ہو گا۔
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’استنبول میں ہونے والی ملاقات کافی اہم ہے کیونکہ وہیں اس میکانزم پر اتفاق کیا جائے گا جبکہ پاکستان کو یہ کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ افغانستان کے اندر موجود پاکستان مخالف عناصر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
ابراہیم بہیس کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح کے میکانزم مسلح گروپوں کے حوالے سے انٹیلیجنس معلومات پر مبنی ہو سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مثال کے طور پر پاکستان ایسی اطلاعات دے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کے کن علاقوں سے حملے کرتے ہیں جبکہ امید ہے کہ افغانستان سے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی امید ہے۔‘
تاہم اس صورت حال کے باوجود ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاملے کا اختتام کیا ہو گا۔
ابراہم بہیس نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ ان کو زیادہ امید نہیں ہے کہ تکنیکی طریقہ کار اس معاملے کے بنیادی مسائل کو حل کر لے گا۔
ترکیہ نے فریقین کی جانب سے امن و استحکام کی طرف بڑھنے کا کو سراہا ہے تاہم اس کے علاوہ کوئی اور تبصرہ نہیں کیا ہے۔
خیال رہے تو ہفتے قبل کابل میں دھماکوں کے بعد الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے طالبان حکومت نے سرحد پر کارروائیاں شروع کر دی تھیں، جس کے بعد غیرمتوقع طور جھڑپوں کا آغاز ہوا جن میں درجنوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔