ڈوبتے ٹائٹینک کے ساتھ یخ بستہ پانیوں میں دفن ہونے والوں کے لیے اور فلم دیکھتے ہوئے بھیگنے والی آنکھیں سُوکھ چکی ہیں مگر 113 سال بعد بھی سانحے سے متعلق انکشافات کے خون آلود پانی کی طرح رِس رِس کر آنے کا سلسلہ نہیں رکا جو اسے مزید خوفناک اور پراسرار بناتا ہے۔
ہسٹری ہٹ اور بزنس انسائیڈر ویب سائٹس پر کچھ ایسے ہی واقعات کی فہرست پیش کی گئی ہے۔
’ہلاکتیں پہلے ہی شروع ہو گئی تھیں‘
مزید پڑھیں
-
آسٹریلوی ارب پتی کلائیو پامر کا ’ٹائٹینک 2‘ جہاز بنانے کا اعلانNode ID: 843846
-
’ٹاس نے بچایا‘، وہ افراد جو ٹائٹینک پر سوار ہوتے ہوتے رہ گئے تھےNode ID: 886459
-
ٹائٹینک ڈوبنے سے قبل جہاز سے لکھا گیا خط چار لاکھ ڈالر میں نیلامNode ID: 888894
جس وقت دنیا کا سب بڑا اور پرتعیش جہاز ہارلینڈ اور وولف کے شپ یارڈ میں 26 ماہ کے دوران تیار ہو رہا تھا اور اس دوران 28 بڑے اور 218 معمولی حادثات ہوئے تھے جن میں آٹھ ورکر جان سے گزر گئے تھے۔
ان میں جیمز ڈوبن بھی شامل تھا جو عین اس روز حادثے کی نذر ہوا جب 31 مئی 1911 کو جہاز کو شپ یارڈ سے دریائے لاگن میں لے جایا جا رہا تھا اور لکڑی کے ان بڑے ٹکڑوں کے نیچے آ گیا تھا جن پر سے جہاز کو گزارا جا رہا تھا۔
ڈرل کیوں منسوخ کی گئی؟
14 اپریل کو جہاز پر لائف بوٹ کے حوالے سے ڈرل ہونا تھی جس کو اچانک منسوخ کر دیا گیا تھا جس کی کوئی واضح وجہ آج تک سامنے نہیں آ سکی، تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کپتان ایڈورڈ سمتھ اتوار کو ریٹائرمنٹ سے قبل اپنی آخری سروس دینا چاہتے تھے اور اسی رات ہی جہاز ڈوب گیا تھا۔
تباہی پر تباہی کے بعد بھی کشش برقرار
1985 میں ٹائٹینک کا ملبہ ملنے کے بعد لوگوں کو اس کو دیکھنے کا شوق ہوا تو بعض کمپنیز نے وہاں لے جانے کے لیے انتہائی مہنگی آبدوز سروس فراہم کی، تاہم جون 2023 میں ٹائٹن نامی آبدوز سفر پر روانگی کے بعد لاپتہ ہو گئی تھی، جس کے بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ دھماکے سے پھٹ گئی تھی اور سوار پانچوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تاہم اس کے بعد بھی امیر لوگوں کا وہاں جانے کا شوق ماند نہیں پڑا اور نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب بھی کچھ لوگ وہاں جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
افسانہ سچ ثابت ہوا
1898 میں لکھے گئے امریکی مصنف مورگن روبرٹسن کے ناول ۔فوٹیلیٹی۔میں ایک جہاز کے ڈوبنے کی افسانوی کہانی بتائی گئی تھی اور اس کا نام ٹائٹن تھا جس کے 14 سال بعد ٹائٹینک کا واقعہ رونما ہوا۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ناول میں بتائے گئے جہاز اور ٹائٹینک میں بہت سی مماثلتیں بھی پائی جاتی تھی۔

کتوں کے لیے جان دینے والی خواتین
الزبتھ ایشم نامی خاتون کے بارے میں بعدازاں معلوم ہوا تھا کہ انہیں کشتی میں بٹھا دیا گیا تھا تاہم وہ اپنے کتے کو لانے پر بضد رہیں اور نہ لائے جانے پر دوبارہ جہاز پر چڑھ گئیں جس کے تھوڑی دیر بعد جہاز ڈوب گیا جبکہ تین اور خواتین بھی ایسی تھیں جنہوں نے اپنے کتوں کے لیے جان دی۔
ہنی مون منانے والے جوڑے
جہاز پر 13 ایسے جوڑے سوار تھے جو ہنی مون پر تھے ان میں اس وقت کے امیر ترین شخص جان جیکب سٹور بھی شامل تھے جن کی بعدازاں لاش ملی تھی جبکہ ان کی بیگم بچ گئی تھیں۔
’تم بزدل ہو، خواتین کے کپڑے پہن کر کیوں نکلے‘
جہاز کے ڈوبنے سے گھنٹہ بھر قبل اعلان کیا گیا تھا کہ پہلے خواتین اور بچوں کو نکالا جائے جبکہ ہر کوئی جان بچانے کی فکر میں تھا اس لیے بعدازاں ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ کچھ مرد خواتین کے کپڑے پہن کر نکل گئے تھے اور یہ بات اس وقت کھلی جب ایسا کرنے والے شخص کی اہلیہ ہیلن نے اسے بزدل قرار دیتے ہوئے طلاق لے لی تھی جس کے بعد مزید شواہد بھی سامنے آئے۔

ان افراد سے پوچھ گچھ بھی ہوئی جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت زبانی کلامی طور پر خواتین کو پہلے نکالنے کا کہا گیا تھا اور آفیشلی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔
بچانے والے بھی نہ بچے
ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاز پر سوار وہ سارے انجینیئر بھی ہلاک ہو گئے تھے جنہوں نے کسی بھی خرابی کی صورت میں جہاز کو ٹھیک کر کے منزل تک پہنچایا تھا۔
بچنے والی خاتون کا ایک اور جہاز بھی ڈوبا
جہاز کی میڈیکل ٹیم میں وائلٹ جیسوپ نام کی نرس بھی تھیں جن کو اس لیے کشتی میں بٹھایا گیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں کیونکہ خواتین ان میں بیٹھنے سے کترا رہی تھیں۔ بعدازاں انہوں نے بیٹانک نامی ایک اور جہاز پر سفر کیا اور وہ بھی ڈوب گیا تھا وہ اس میں بھی بچ گئی تھیں۔

’ساتھ مریں گے‘
فلم کا وہ منظر سب کو یاد ہو گا جس میں ایک عمر رسیدہ جوڑا بیڈ پر لیٹا ہے اور پانی کمرے میں آ جانے پر باہر نہیں نکلتا، ایسا واقعی ہوا تھا۔
حقیقی شخص کا نام سٹارسس اور بیوی کا نام ایدا تھا، خواتین کو لائف جیکٹس ملنے اور نکالے جانے کے اعلان کے بعد بھی اہلیہ نے جانے سے انکار کر دیا تھا اور شوہر کے ساتھ کمرے میں چلی گئی تھیں۔ بعد میں سٹارسس کی لاش مل گئی تھی تاہم ایدا کی نہیں ملی۔

عجب اتفاق یہ بھی ہے کہ ان کی پڑپوتی کی شادی سٹاکٹن رش نامی شخص سے ہوئی جو اوشن گیٹ کمپنی کے سی ای او تھے اور حیرت انگیز طور پر وہ ٹائٹن کی تباہی کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
مدد کے لیے نہ آنے والا جہاز بھی ڈوبا
حادثے کے وقت جہاز سے کچھ فاصلے پر کیلیفورنین نامی ایک اور جہاز بھی موجود تھا جس کا ریڈیو بند تھا اور جب ٹائٹینک سے فلیئر گنز چلائی گئیں تو کپتان سمجھا کہ اس پر آتش بازی کی جا رہی ہے اور جب اس کو واقعے کی اطلاع ملی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اس کے بعد کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف تین سال بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران کیلیفورنین بھی ڈوب گیا تھا۔
ٹائٹینک آرفنز

جہاز پر ایسے دو کم سن بھائی ملے تھے جن میں سے ایک کی عمر چار اور دوسرے کی دو سال تھی وہ اپنے والد کے ساتھ تھے جن کو آخری بار تب دیکھا گیا جب وہ بچوں کو کشتی پر بٹھا رہے تھے، ان کو ٹائٹینک آرفن قرار دیا گیا تھا۔
آدھے سے زیادہ سکول یتیم ہوا
واقعے کے بعد ایکو اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا اس میں سب سے زیادہ متاثر نارتھم سکول کے بچے ہوئے تھے جہاں کے 240 طلبا میں سے 120 نے اپنے والد کو کھو دیا تھا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جہاز کے کریو سے تھا۔
’جینٹلمین کے طور پر مروں گا‘
فلم میں دکھایا جانے والا وہ سین حقیقت پر مبنی ہے جس میں بینجمن گوگنہیم نامی شخص لائف جیکٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ۔ ہم نے اچھے کپڑے پہنے ہیں اور جیٹلمین کے طور پر مرنے کے لیے تیار ہیں۔

واقعے کے وقت ان کے قریب موجود لوگ جو بچ گئے تھے، کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہی الفاظ ادا کیے تھے۔
انہوں نے ایک سٹیورڈ کو یہ بھی کہا تھا کہ ۔نیویارک میں موجود میری بیوی کو بتایا جائے کہ میں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے وہ کیا، جو بہترین تھا۔
سیوڈ فرام ٹائیٹینک
اس وقت کی اداکارہ ڈورتھی بھی بچ جانے والے افراد میں شامل تھی جنہوں نے واقعے کے بعد بننے والی فلم ۔سیوڈ فرام ٹائٹینگ۔ میں کام کیا تھا۔
یہ مئی 1912میں ریلیز ہوئی تھی اس دوران انہوں نے وہی کپڑے پہنے جو جہاز کے اندر پہنے ہوئے تھے۔













