Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شی جن پنگ عظیم رہنما، بہت سے معاملات طے پا گئے ہیں: صدر ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات بہت کامیاب رہی اور وہ دوبارہ بات چیت کے لیے اپریل میں چین جائیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ نے جمعرات کو چھ سال بعد پہلی بار بالمشافہ ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہوئی۔
ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم نے بہت سے معاملات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کو ’ایک بہت طاقتور ملک کے شاندار رہنما‘ قرار دیا۔
امریکی صدر نے بتایا کہ ’میں اپریل میں چین جا رہا ہوں اور وہ کچھ عرصے بعد فلوریڈا، پام بیچ یا واشنگٹن ڈی سی آئیں گے۔‘
روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے بتایا کہ وہ چین کی درآمدی اشیاء پر عائد محصولات کو 47 فیصد تک کم کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
’اس کے بدلے میں چین امریکہ سے سویا بین کی خریداری دوبارہ شروع کرے گا، نایاب زمینوں (ریئر ارتھ) کی برآمدات جاری رکھے گا اور (ہیروئن سے زیادہ طاقتورمصنوعی دوا) فینٹینائل کی غیر قانونی تجارت پر سخت کارروائی کرے گا۔‘
جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے شی جن پنگ کے ساتھ تائیوان کے معاملے پر بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ (معاملہ) کبھی زیر بحث نہیں آیا۔ تائیوان کا کبھی ذکر نہیں ہوا۔‘
چین خود مختار تائیوان کو اپنی سر زمین کے طور پر دیکھتا ہے لیکن تائیوان کی حکومت بیجنگ کی حاکمیت کے دعووں کو مسترد کرتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ وہ اور شی جن پنگ یوکرین کے معاملے پر مل کر کام کریں گے۔
’یوکرین کے معاملے پر کافی دیر بات ہوئی اور ہم دونوں مل کر کام کر کے دیکھیں گے کہ کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت سے عالمی سطح پر سفارتی پیش رفت کی امید کی جا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اقتصادی اور تجارتی معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا: چینی صدر

چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کا اقتصادی اور تجارتی معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق چین کی سرکاری نیوز ایجنسی ژن ہوا نے رپورٹ کیا کہ شی جن پنگ نے کہا کہ ’دونوں ممالک کی اقتصادی اور تجارتی ٹیموں نے اہم اقتصادی اور تجارتی مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور انہیں حل کرنے پر اتفاق کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں ٹیمیں جلد از جلد آئندہ اقدامات کو حتمی شکل دیں، اس اتفاق رائے کو برقرار رکھیں اور عمل میں لائیں، اور ٹھوس نتائج فراہم کریں تاکہ چین، امریکہ اور دنیا کی معیشت کے بارے میں تحفظات دور ہوں۔‘

’شی جن پنگ ایک سخت مذاکرات کار‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’چینی صدر کے ساتھ ہمارا طویل عرصے تک شاندار تعلق قائم رہے گا۔‘
صدر ٹرمپ نے ملاقات کے آغاز پر کہا کہ انہیں امید ہے کہ چینی صدر کے ساتھ ان کی ملاقات ’بہت کامیاب‘ رہے گی۔ انہوں نے شی جن پنگ کو ’ایک سخت مذاکرات کار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ باہمی تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔
شی جن پنگ نے ٹرمپ سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سے دوبارہ مل کر بہت اچھا لگا۔‘
چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ اگرچہ چین اور امریکہ کے درمیان ہر معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، لیکن دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ شراکت دار اور دوست بننے کی کوشش کریں۔

شی جن پنگ نے ٹرمپ سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سے دوبارہ مل کر بہت اچھا لگا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران شی جن پنگ نے کہا کہ ’چین اور امریکہ بطور بڑی طاقتیں اپنی ذمہ داریاں مشترکہ طور پر نبھا سکتے ہیں اور دونوں ممالک اور پوری دنیا کی بہتری کے لیے مزید ٹھوس اور مثبت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔‘
دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت سے عالمی سطح پر سفارتی پیش رفت کی امید کی جا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور اہم معدنیات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تجارتی معاہدے ختم ہو چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات طویل ہو گی جس میں فریقین کو اپنے مفادات سے متعلق بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کا موقع ملے گا۔ 

’نیوکلیئر تجربات شروع کریں‘، امریکی صدر کی محکمہ دفاع کو ہدایت

چینی ہم منصب سے ملاقات سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے محکمۂ دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ دیگر ایٹمی طاقتوں کے برابر نیوکلیئر تجربات دوبارہ شروع کر دے۔
روئٹرز کے مطابق انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘ پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’دیگر ممالک کے تجرباتی پروگراموں کی وجہ سے، میں نے محکمۂ جنگ کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ان کے مقابلے میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کا آغاز کرے۔ یہ کام فوری طور پر شروع کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’روس دوسرے نمبر پر ہے اور چین کافی پیچھے تیسرے نمبر پر ہے مگر وہ پانچ سال میں اس کے برابر آ جائے گا۔‘
امریکہ نے آخری مرتبہ 1992 میں نیوکلیئر تجربہ کیا تھا۔ یہ تجربات اس بات کے شواہد فراہم کرتے ہیں کہ کوئی نیا ایٹمی ہتھیار کس حد تک مؤثر ہے اور پرانے ہتھیار اب بھی قابلِ استعمال ہیں یا نہیں۔

شیئر: