امریکہ کے چین کے ساتھ تجارتی معاہدے میں تنازعے کی ایک اہم وجہ نایاب معدنیات بھی ہیں جن پر چین نے پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق گذشتہ کئی مہینوں کے دوران امریکی تجارتی مذاکرات کاروں کے ساتھ بات چیت کے باوجود چین نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ یقین دہانی کرانے میں سستی دکھائی ہے کہ وہ اہم نایاب دھاتوں کی فراہمی کو آزاد کرے گا۔ چین نے امریکی کمپنیوں کو فوری لائسنس دینے کے وعدے بھی پورے نہیں کیے۔
اس کے بجائے رواں ماہ کے آغاز میں بیجنگ نے اپنے کنٹرولز کو مزید سخت کرتے ہوئے پابندیوں میں زبردست اضافہ کر دیا۔
مزید پڑھیں
- 
شی جن پنگ عظیم رہنما، بہت سے معاملات طے پا گئے ہیں: صدر ٹرمپNode ID: 896562
جمعرات کو تحت چین نے حالیہ عائد کردہ قواعد کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی، اگرچہ اپریل میں لگائی گئی ابتدائی پابندیاں بدستور برقرار ہیں۔
نایاب زمینی معدنیات پر یہ کشمکش موجودہ انتظامیہ سے پہلے کی ہے۔ چین نے کئی سالوں سے ان معدنیات پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کر رکھا ہے جو اس کی وسیع صنعتی پالیسی کا حصہ ہے۔
نایاب معدنیات کیا ہیں، اور کیا یہ واقعی ’نایاب‘ ہیں؟
نایاب معدنیات میں پیریاڈک ٹیبل کے 17 دھاتی عناصر شامل ہیں جن میں سکینڈیم، ایٹریئم اور لینتھنائیڈز شامل ہیں۔
نایاب معدنیات مواد زمین کی سطح میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ یہ سونے سے زیادہ عام ہیں، لیکن ان کو نکالنا اور پراسیس کرنا مشکل، مہنگا اور ماحولیاتی طور پر نقصان دہ ہوتا ہے۔

نایاب زمینی معدنیات کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟
یہ معدنیات روزمرہ ٹیکنالوجیز میں عام ہیں، جیسے سمارٹ فونز، ونڈ ٹربائنز، ایل ای ڈی لائٹس اور فلیٹ سکرین ٹی وی۔ یہ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں، ایم آر آئی سکینرز اور کینسر کے علاج میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ امریکی فوج کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ 2025 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایف-35 فائٹر جیٹس، آبدوزوں، لیزرز، سیٹلائٹس، ٹوماہاک میزائلز وغیرہ میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔
یہ معدنیات کہاں سے آتی ہیں؟
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق دنیا میں کان کنی سے حاصل ہونے والی نایاب معدنیات کا 61 فیصد چین سے آتا ہے اور پراسیسنگ کے مرحلے میں چین کا کنٹرول 92 فیصد ہے۔
یہ معدنیات دو اقسام میں تقسیم کی جاتی ہیں، بھاری اور ہلکی۔ بھاری نایاب معدنیات زیادہ کمیاب ہیں اور امریکہ کے پاس ان کو نکالنے کے بعد الگ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں کریٹیکل منرلز سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر گریسلن باسکرن نے کہا کہ ’سال کے آغاز تک جو بھی بھاری نایاب زمینی معدنیات ہم کیلیفورنیا میں نکالتے تھے، ہم انہیں الگ کرنے کے لیے چین بھیجتے تھے۔‘

تاہم اپریل میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین پر بھاری ٹیرف لگانے کے اعلان نے اس عمل کو متاثر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’چین نے امریکہ کے چین پر انحصار کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔‘
امریکہ میں صرف ایک نایاب زمینی معدنیات کی کان فعال ہے جو کیلیفورنیا میں واقع ہے۔
تجارتی جنگ میں نایاب معدنیات کیوں اہم ہیں؟
بیجنگ نایاب زمینی معدنیات کو تجارتی جنگ میں ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اور اس کی حالیہ پابندیاں شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سربراہی اجلاس میں اہم موضوع تھیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں چین نے پانچ نایاب زمینی عناصر ہولمیم، ایربیم، تھولیم، یوروپیم، ایٹربیئم اور متعلقہ میگنیٹس و مواد کو اپنی کنٹرول لسٹ میں شامل کیا، جس کے لیے برآمدی لائسنس درکار ہیں۔

اس سے پابندیوں کے تحت آنے والے نایاب زمینی عناصر کی تعداد 12 ہو گئی۔ چین نے نایاب زمینی مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجیز کی برآمد کے لیے بھی لائسنس لازمی قرار دے دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین کی نایاب معدنیات پر پابندیوں نے ٹرمپ کو ناراض کیا ہو۔ جون میں ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ شوسل پر کہا کہ چین نے تجارتی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ بیجنگ نے سات نایاب زمینی معدنیات اور متعلقہ مصنوعات پر اپنی برآمدی پابندیاں برقرار رکھی ہیں۔
یہ برآمدی کنٹرولز بڑا اثر ڈال سکتے ہیں، کیونکہ امریکہ نایاب زمینی معدنیات کے لیے چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2023 کے درمیان امریکہ کی نایاب مرکبات اور دھاتوں کی 70 فیصد درآمدات چین سے آئیں۔
لیکن چین کی حالیہ پابندیاں دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں ایک ڈرامائی اضافے کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔













