Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور جنرل ہسپتال میں غیر تربیت یافتہ عملے کا پوسٹمارٹم سکینڈل، تحقیقات شروع

۔ پوسٹمارٹم کے عمل کا آغاز پولیس سے ہی جو جاتا ہے جو میت کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد اس کا ریکارڈ بنا لیتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے جنرل ہسپتال کے مردہ خانے میں خواتین کی لاشوں کے پوسٹمارٹم کے دوران سنگین انتظامی اور قانونی خلاف ورزیوں کے انکشاف کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ کمیٹی سی سی ٹی وی فوٹیج، عملے کی تعیناتی اور پروٹوکول کی خلاف ورزیوں کا جامع جائزہ لے گی۔
یہ کمیٹی، جس میں سینیئر میڈیکل افسران اور قانونی ماہرین شامل ہیں، 72 گھنٹوں کے اندر ابتدائی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہے۔ جبکہ اتنظامیہ نے متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ واقعے کی مکمل انکوائری کے بعد قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جنرل ہسپتال سے نکلنے والی اس مبینہ فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ غیرتربیت یافتہ اور غیرمتعلقہ افراد جن میں ہسپتال کا مستقل کوئی ملازم شامل نہیں، خواتین کی میتوں کا معائنہ اور پوسٹمارٹم کر رہے ہیں، اور یہ سب کام کسی مستند ڈاکٹر کی نگرانی کے بغیر انجام دیا جا رہا تھا۔ فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ہیلپر سطح کا شخص سوئی اور دیگر آلات استعمال کرتے ہوئے لاش کا معائنہ کر رہا ہے، جبکہ مردہ خانے میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی واضح ہے۔

پوسٹمارٹم کون کر سکتا ہے؟

اس فوٹیج کے منظرعام پر آنے سے یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ ہسپتالوں میں پوسٹمارٹم کی ذمہ داری اصل میں ہے کس کی؟ اس حوالے سے اگر پاکستان میں رائج قانون کو دیکھیں تو اس کا جواب پاکستان کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 174 سے جڑا ہے۔ اس کے تحت کسی بھی مشکوک موت، قتل یا پولیس کیس میں پوسٹمارٹم لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ عمل صرف مستند میڈیکل آفیسر یا فورنزک پتھالوجسٹ انجام دے سکتا ہے جو سول سرجن یا پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی سے منظور شدہ ہو۔ غیرتربیت یافتہ یا غیرمتعلقہ افراد کا اس میں ملوث ہونا قانونی طور پر جرم ہےجو میڈیکل کونسل آف پاکستان کے ضوابط اور پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے پروٹوکول کی واضح خلاف ورزی ہے۔

پاکستان کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 174 کے تحت کسی بھی مشکوک موت، قتل یا پولیس کیس میں پوسٹمارٹم لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: کالج پلاننگ سینٹر)

پنجاب فرانزیک سائنس ایجنسی کی ہدایات کے مطابق خواتین کی میتوں کا پوسٹمارٹم لازمی طور پر خاتون ڈاکٹر کی نگرانی میں ہونا چاہیے تاکہ پرائیویسی اور پروفیشنل سٹینڈرڈز برقرار رہیں۔ پوسٹمارٹم کے عمل کا آغاز پولیس سے ہی جو جاتا ہے جو میت کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد اس کا ریکارڈ بنا لیتی ہے۔ جس کے بعد میت ہسپتال منتقل ہوتی ہے اور بیرونی و اندرونی معائنہ، زخموں، زہریلے مادوں اور وجہِ موت کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد نمونے جیسے ہسٹوپیتھالوجی، کیمیکل اور ڈی این اے وغیرہ لیبارٹری بھیجے جاتے ہیں، جن کی رپورٹ حتمی وجہِ موت طے کرتی ہے اور عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش ہوتی ہے، البتہ صرف متعلقہ ڈاکٹر کی گواہی کے ساتھ ہی یہ معتبر ہوتی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں ڈاکٹرز کی لائسنس معطلی اور جرمانہ یا قید جیسی سزائیں عائد ہو سکتی ہیں۔
جنرل ہسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے انکوائری جاری ہے، رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔ جیسے ہی رپورٹ آئے گی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

 

شیئر: