لاہور کی گلیوں میں بسنت کی رنگینی ایک بار پھر لوٹنے والی ہے، وہ روایت جو کبھی بہار کے استقبال کی خوشی کی علامت تھی، آج ’محفوظ حدود‘ میں اپنی جگہ دوبارہ بنانے کے لیے پر تول رہی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور میں محدود سطح پر بسنت منانے کی اجازت دینے کا اعلان دو دہائیوں پر محیط بے رنگی کے خاتمے کی طرف ایک قدم ہے۔ جہاں روایتی مسرت کو جدید حفاظتی اقدامات کی چادر اوڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔
مزید پڑھیں
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق، پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگ زیب کی زیرِصدارت ایک اعلٰی سطح کے اجلاس میں فروری میں بسنت منانے کی تیاریوں کے لیے کام کمیٹیوں کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ اس میٹنگ میں ڈپٹی کمشنر لاہور کی تیار کردہ تفصیلی پریزینٹیشن نے اس عمل کو تاریخی اور انتظامی دونوں زاویوں سے اجلاس کے سامنے رکھا۔
لاہور کے 12 دروازوں کے اندر بسنت ہوگی
ابتدائی طور پر پنجاب کی صوبائی حکومت لاہور سے بسنت کی محدود واپسی کی کوشش کرنے جا رہی ہے جہاں شہر کی تاریخی اور ثقافتی گلیاں ایک بار پھر پتنگوں کی آوازوں سے گونج اٹھیں گی۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے حکومت کو پیش کی گئی سفارشات میں اندرون شہر کے مخصوص علاقوں کو بسنت کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جن میں شاہی قلعہ، موچی گیٹ، بھاٹی گیٹ اور رنگ محل جیسے زونز شامل ہیں۔ یہ فیصلہ سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کی زیرِصدارت منعقدہ اہم اجلاس میں حتمی شکل اختیار کر گیا، جہاں ’محفوظ بسنت پلان‘ کی منظوری دی گئی۔ اس پلان کے تحت بسنت کا جشن صرف دو دن تک محدود رہے گا یعنی سنیچر اور اتوار، تاکہ شہر کی رونقیں بہار کی اس روایت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں مگر افراتفری اور حادثات سے بچا جا سکے۔

بھاٹی دروازے کے اندر ایک دکان پربیٹھے غلام محمد پہلے ہی اس بسنت کی مشروط اجازت کے بارے میں جانتے ہیں، انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بھاٹی میں میرے والد نے سب سے پہلے گُڈی کے کاروبار کا آغاز کیا۔ میں اپنے باپ کی اسی کمائی سے بڑا ہوا ہوں۔ وہ دور اچھا تھا جب خطرناک ڈور نہیں بنائی جاتی تھی۔ اور یہ ایک محفوظ کھیل تھا۔ بسنت ضرور ہونی چاہیے لیکن لوگوں کی گردنیں بھی نہیں کٹنی چاہییں۔ اگر لوگوں نے ٹھیک طرح سے برتاؤ نہ کیا اور اس تہوار کو سلیقے سے نہ منایا تو دوبارہ اس پر پابندی لگ جائے گی۔‘
اندرون لاہور کے ہی ایک اور شہری عثمان رومی کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ بہت اچھا ہے اور اس کو ہر برس ایسے ہی منانا چاہیے۔ لیکن مسئلہ ہم لوگوں میں ہے، نہ ڈور کے ساتھ پتنگ اڑاتے، اور ویسا ہی کرتے جیسے حکومت چاہتی تھی تو صورت حال یہ نہ ہوتی۔ اب بھی حکومت خود بسنت لے کر آ رہی ہے۔ وہ اتنا اچھا دور تھا کہ غیرملکی خاص طور پر بسنت منانے آتے تھے۔‘
’میں اس دور میں خود بسنت مناتا تھا۔ اب ہمارے بچوں کو نہیں پتہ بسنت کیا ہوتی ہے۔ اب اس کو واپس آنا چاہیے اور یہ ہو گی اگر ہم اس کو ٹھیک طریقے سے منائیں گے اور قانون کی پابندی کریں گے۔ اس سے تو روزگار بہت بڑھے گا۔‘
سرکاری دستاویزات کے مطابق ان زونز میں خصوصی انتظامات کیے جائیں گے، جیسے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور ٹریفک کنٹرول، تاکہ روایتی مسرت ایک منظم تہوار کی شکل اختیار کر لے۔

ماہرین کے مطابق یہ قدم نہ صرف ثقافتی زندہ دلی کو بحال کرے گا بلکہ شہریوں کو یہ احساس دلائے گا کہ روایات کو محفوظ رکھنا ممکن ہے، بشرطیکہ قواعد کی پابندی کی جائے۔
دو دہائیوں کی پابندی اور اس کی وجوہات
بسنت کی یہ واپسی ایک ایسے دور کی یاد دلاتی ہے جب آسمان میں پرواز کرنے والی پتنگوں کے سائے میں لوگ اپنی جان دھونا شروع ہو گئے تھے۔ جس کے بعد پنجاب میں گذشتہ دو دہائیوں سے بسنت پر مکمل پابندی عائد ہے، اور اس کی بنیادی وجہ تیز دھاتی، نائیلون اور کیمیکل سے تیار شدہ ڈوریں تھیں، جنہوں نے سینکڑوں قیمتی جانیں نگل لی تھیں۔
سرکاری اعداد و شمار اور تاریخی دستاویزات کے مطابق، ان خطرناک ڈوروں کی وجہ سے ہونے والے حادثات نے نہ صرف خاندانوں کو تباہ کیا بلکہ ایک پوری روایت کے خاتمے کا باعث بن گئے۔ نئی صدی کے ابتدائی چند برسوں میں لاہور اور دیگر شہروں میں بسنت کے دنوں میں ہونے والے المناک واقعات نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ اس تہوار کو روک دیا جائے، کیونکہ حفاظتی اقدامات کی کمی نے خوشی کو غم کی وجہ بنا دیا تھا۔
ماضی کے ان واقعات نے نہ صرف پتنگ بازی کو بند کیا بلکہ متعلقہ صنعت کو بھی برباد کر دیا، جہاں ہزاروں کاریگر بے روزگار ہو گئے۔

سرکاری پریزینٹیشن میں بیان کیا گیا ہے کہ ان حادثات کی تفصیلات نے انتظامیہ کو ایک جامع پلان بنانے پر مجبور کیا، جہاں ہر ممکن حفاظتی تدبیر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ واپسی اس لیے اہم ہے کہ یہ روایتی ثقافت کو سزا دینے کی بجائے اسے بچانے کی کوشش ہے۔
نئی بسنت کیسی ہوگی؟
محفوظ بسنت پلان کی روح حفاظت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ تیز دھاتی، نائیلون اور کیمیکل ڈور کے استعمال پر بددستور پابندی رہے گی اور صرف کپاس یا نشاستے سے تیار شدہ ڈور کی اجازت ہو گی جو انسانی جانوں اور ماحول دونوں کے لیے محفوظ ہوں گی۔ اس کے علاوہ ہر ڈور اور پتنگ پر بار کوڈ لازمی قرار دیا گیا ہے، جو نگرانی کو آسان بنائے گا اور جعلی یا خطرناک سامان کی روک تھام کرے گا۔ غیررجسٹرڈ پتنگ فروشوں اور غیرمحفوظ ڈور بنانے والوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن بھی اقدامات کا حصہ ہو گا جس میں جرمانے اور قانونی کارروائیاں شامل ہوں گی۔
بسنت والے علاقوں میں موٹر سائیکلوں کے داخلے پر پابندی تجویز کی گئی ہے، اور جن کے پاس اجازت نامہ ہو گا، ان کے لیے سیفٹی اینٹینا اور گلے کے کور لازمی ہوں گے، تاکہ حادثات کی صورت میں فوری مدد مل سکے۔ مرکزی سڑکوں پر سیفٹی نیٹس اور وائر پروٹیکشن سسٹم نصب کیے جائیں گے، جو پتنگ بازی کو محفوظ بنائیں گے۔