خیبرپختونخوا حکومت کے دہشت گردوں سے مذاکرات سے انتشار پھیلے گا: ڈی جی آئی ایس پی آر
خیبرپختونخوا حکومت کے دہشت گردوں سے مذاکرات سے انتشار پھیلے گا: ڈی جی آئی ایس پی آر
پیر 3 نومبر 2025 15:08
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ’اگر خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردوں سے بات چیت چاہتی ہے تو ایسا ناقابلِ عمل ہے کیونکہ اس سے انتشار پھیلتا ہے۔‘
پیر کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’معرکہ حق میں حکومت، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مشترکہ فیصلے کیے۔ (ٹی ٹی پی) طالبان ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو مارتے ہیں، ان سے مذاکرات کیسے کیے جا سکتے ہیں؟‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ علما، میڈیا اور سیاستدان ایک زبان ہونے چاہییں، تب مل کر فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے طالبان کی آمد پر کبھی جشن نہیں منایا، ہمارے اور طالبان گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی گئی ہیں۔‘
ڈرونز کے بارے میں سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’امریکہ کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے، طالبان کی جانب سے ڈرون کے حوالے سے کوئی رسمی شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکہ کے ڈرونز پاکستان سے افغانستان نہیں جاتے اور وزارت اطلاعات نے اس کی پہلے بھی وضاحت کی ہے، ہمارا ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان روانہ ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں واضح پیغام دیا گیا کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوئے تو یہ عناصر بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ آئین و قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’اصل مسئلہ دہشت گردی، مجرمانہ عناصر اور ٹی ٹی پی کا ایک نیٹ ورک ہے، یہ لوگ افیون کی کاشت کرتے ہیں اور فی ایکڑ 18 تا 25 لاکھ روپے تک حاصل کرتے ہیں، پوری آبادی ان کے ساتھ جڑ جاتی ہے، وار لارڈز بھی ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، اس آمدنی کا حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو ملتا ہے، دہشت گردی، چرس اور سمگلنگ میں یہ گروہ مل کر کام کرتے اور کماتے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وادی تیرہ میں فوج نے آپریشن کیا، اگر ہم کوئی بڑا آپریشن کریں گے تو اسے بتایا جائے گا، ہم نے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیے ہیں جن میں قریب 200 جوان اور افسران جان سے گئے، ہماری چوکیوں اور قافلوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں جو رسد لے جا رہے ہوتے ہیں۔‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’استنبول میں ہونے والی کانفرنس میں ہمارا موقف واضح ہے: دہشت گردی ناقابل قبول ہے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ سیز فائر معاہدہ ہماری طاقت کے تحت ہوا تھا اور افغان طالبان ہمارے دوست ملکوں کے پاس گئے تھے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمیں اخلاقیات کا درس دینے کی ضرورت نہیں اور ہم کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر منت نہیں مانگتے، ہم اپنی افواج اور عوام کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔‘
افغان طالبان رجیم بدلنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ ہی سیاست دانوں جیسا بیانیہ اپناتی ہے؛ ہم اپنی بات سیدھی اور براہِ راست کہتے ہیں۔‘
میزائل تجربے کے بارے میں سوال پر اُن کا جواب تھا کہ ہر ملک میں دفاعی اور تکنیکی ترقی معمول کی بات ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’بلوچستان میں آپریشنز کی تعداد زیادہ ہے اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ ’اس سال اب تک 62 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے، ان میں 1,667 دہشت گرد ہلاک ہوئے، سالانہ اوسطاً روزانہ تقریباً 207 آپریشن ہو رہے ہیں، یہ آپریشن آرمی، رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ ہیں، ہلاک شدگان میں 128 افغان شامل ہیں اور ان کارروائیوں میں ہمارے 582 افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں آپریشنز کی تعداد زیادہ ہے اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں، یہ عناصر فوج کے خلاف کام کرتے اور عشر کے نام پر جبراً رقم وصول کرتے ہیں، جو دراصل بھتہ ہے اور وہ سرحد کھولنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جا سکے، اس کی آمدنی طالبان اور وار لارڈز دونوں تک پہنچتی ہے، یہ منشیات ہماری یونیورسٹیوں تک پہنچ رہی ہے اور ہماری نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔‘
گورنر راج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
غزہ میں فوجی تعیناتی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا معاملہ ہے، فوج کا نہیں۔