Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ کو انتخابات کے انعقاد کے لیے افسران مہیا کرنے کا پابند بنایا جائے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کی یہ تجویز کئی دہائیوں پر پھیلے ایک تاریخی پس منظر میں سامنے آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں انتخابی تاریخ ہمیشہ انتظامی اور عدالتی کردار کے گرد گھومتی رہی ہے، اور ہر الیکشن کے بعد سب سے زیادہ بحث ریٹرننگ افسران (آر اوز) کے اختیارات، کردار اور شفافیت پر ہوتی ہے۔
عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہونے کے ساتھ ہی ایک بار پھر یہی سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں شفاف انتخابات کے لیے انتظامیہ کے ماتحت افسران ہی کافی ہیں یا عدلیہ کے کردار کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہیے؟
 الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2024 کے انتخابات میں پیدا ہونے والے مسائل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تنقید کی روشنی پارلیمان کو باضابطہ طور پر تجویز کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنے افسران فراہم کرنے کا پابند بنایا جائے۔
اردو نیوز کو دستیاب الیکشن کمیشن کی پارلیمان کو بھیجی گئی تجاویز پر مبنی دستاویز میں پہلی بار کھل کر تسلیم کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی فراہمی سے انکار نے کمیشن کی کارکردگی، شفافیت اور قانونی استحکام پر براہِ راست اثر ڈالا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی سفارشات میں واضح کیا ہے کہ انتخابات ایکٹ 2017 کی شق 50(1)(c) میں ترمیم کی جائے تاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس بات کا قانونی پابند بنایا جائے کہ وہ کمیشن کی درخواست پر عدالتی افسران کی خدمات فراہم کریں۔
تجویز کے مطابق قانون میں موجود الفاظ ’مشاورت سے‘ کو ’فراہم کریں گے‘ سے تبدیل کیا جائے۔ کمیشن کے مطابق یہ ایک سادہ مگر بنیادی نوعیت کی تبدیلی ہوگی جو ہر الیکشن سے پہلے کمیشن اور عدلیہ کے درمیان ہونے والی طویل گفت و شنید کا سلسلہ ختم کر کے ایک واضح، لازمی اور پیشگی ذمہ داری طے کر دے گی۔
الیکشن کمیشن کی یہ تجویز کئی دہائیوں پر پھیلے ایک تاریخی پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ 1970 کے پہلے عام انتخابات سے لے کر 2013 تک پاکستان میں عام طور پر عدالتی افسران کو ہی ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے طور پر تعینات کیا جاتا رہا۔

اعلیٰ عدلیہ نے اپنے افسران کو انتخابی فرائض کے لیے فراہم کرنے پر شدید تحفظات ظاہر کیے (فوٹو: اے ایف پی)

اس روایت کی بنیاد ان عہدوں کی نیم عدالتی نوعیت پر تھی، کیونکہ ریٹرننگ افسر صرف ایک انتظامی اہلکار نہیں ہوتا بلکہ پورے حلقے کے انتخابی عمل کا محور ہوتا ہے۔ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ، پولنگ سٹیشنوں کی فہرست سازی، عملے کی تربیت، ووٹوں کی گنتی، فارم 45 اور 47 جیسے حساس قانونی دستاویزات کی تیاری اور نتائج کے اعلان جیسے مراحل قانونی سمجھ بوجھ اور آئینی مہارت کے تقاضے رکھتے ہیں۔ عدالتی افسران کی شمولیت سے یہ عمل نہ صرف منظم اور مؤثر ہوتا تھا بلکہ انتخابی فیصلے قانونی اور عوامی جانچ پر بھی پورے اترتے تھے۔
تاہم 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عدالتی عملے کے کردار کو ’گھٹیا‘ قرار دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس کر دیا۔ تاہم عمران خان کا موقف تھا کہ انھوں نے کسی جج کے بارے میں بیان نہیں دیا بلکہ ان کا بیان ان انتخابی جوڈیشل افسران سے متعلق تھا جنھوں نے انتخابات میں دھاندلی ہونے دی۔ 
اسی تناظر میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد اس روایت میں ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے افسران کو انتخابی فرائض کے لیے فراہم کرنے پر شدید تحفظات ظاہر کرنا شروع کیے۔
عدلیہ کا مؤقف تھا کہ عدالتی افسران کی طویل تعیناتی سے عام عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے شہریوں کے بروقت انصاف کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ججوں کو انتخابی سیاست کے متنازع عمل میں شامل کرنا عدلیہ کی غیرجانبداری کے تصور کو مجروح کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب یہی عدلیہ بعد میں انتخابی عذرداریوں کی سماعت کرتی ہے۔ بالآخر 2024 کے عام انتخابات سے قبل یہ تحفظات واضح انکار کی صورت میں سامنے آئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ذاتی ملاقاتوں اور تحریری درخواستوں کے باوجود عدالتی افسران فراہم نہیں کیے گئے۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی سابقہ انتخابات کے دوران یہی مؤقف اپنایا تھا کہ آر اوز عدلیہ سے ہوں (فوٹو: اے ایف پی)

عدلیہ کے اس انکار کے بعد الیکشن کمیشن ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہو گیا۔ کمیشن کے اپنے افسران کی تعداد پورے ملک میں عام انتخابات کے انتظامات کے لیے ناکافی تھی۔ کئی بڑے اضلاع میں محض تین افسران موجود تھے، جبکہ ان میں دس سے زائد حلقے شامل تھے۔ اس مجبوری کے باعث کمیشن کو ضلعی انتظامیہ کے افسران، جیسے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر انتظامی افسران، کو ریٹرننگ افسران مقرر کرنا پڑا۔ 
پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی سابقہ انتخابات کے دوران یہی مؤقف اپنایا تھا کہ آر اوز عدلیہ سے ہوں، انتظامی مشینری پر اعتماد نہیں کیونکہ شفاف انتخابات کی ضمانت انہی افسران سے ممکن ہے جن کی غیرجانبداری اور قانونی تیاری تسلیم شدہ ہو۔ 
پی ٹی آئی کے مطابق بیوروکریسی کی نگرانی میں انتخابات کرانے سے غیر ضروری سیاسی اثرات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ 2024 کے اوائل میں پارٹی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس کے تحت بیوروکریٹس کو ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔
کمیشن نے اس حوالے سے پارلیمان کے وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتظام ایک وقتی حل تھا جس کے نتائج کئی پہلوؤں سے غیر تسلی بخش ثابت ہوئے۔ انتظامی افسران، باوجود تربیت کے، انتخابی قوانین کی پیچیدگیوں سے مکمل واقف نہیں تھے۔ ان پر اپنے اصل سرکاری فرائض کا بوجھ بھی برقرار تھا، جس کے باعث وہ امیدواروں کے ساتھ فوری رابطہ برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ کئی حلقوں میں پولنگ سٹیشنوں کی حتمی منظوری میں تاخیر ہوئی، نتائج کے اجراء میں تکنیکی غلطیاں سامنے آئیں، اور فارم 45 اور 47 کی تیاری میں بدانتظامی رپورٹ ہوئی۔
کمیشن نے بتایا گیا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران ایک ہی ضلع میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لیے الگ الگ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی سے ہم آہنگی کے شدید مسائل پیدا ہوئے، جس سے عملے کی تعیناتی، انتخابی مواد کی تقسیم اور شکایات کے ازالے میں مشکلات پیش آئیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تقریباً 2800 افسران پر مشتمل یہ عملہ ایک غیر متوازن اور بوجھل نظام کے تحت کام کرتا رہا۔

بعض قانونی ماہرین اسے انتخابی عمل میں استحکام لانے کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اسی پس منظر میں الیکشن کمیشن نے ایک جامع اصلاحاتی تجاویز پر مبنی پیکج پیش کیا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے علاوہ کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ ایک ریٹرننگ افسر کو بیک وقت قومی اسمبلی کے حلقے اور اس کے ساتھ منسلک صوبائی نشستوں کی نگرانی کی اجازت دی جائے تاکہ ہم آہنگی میں بہتری آئے اور آر اوز کی تعداد کم ہو۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ انتخابی افسران کی تربیت آخری لمحوں کے بجائے پورے انتخابی سال کے دوران مرحلہ وار کی جائے تاکہ ایک تجربہ کار اور مستعد عملہ ہر وقت دستیاب ہو۔
ماہرین کے مطابق اگر پارلیمان نے یہ ترمیم منظور کر لی تو اس سے انتخابی اداروں اور عدلیہ کے تعلقات کی نوعیت ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔ بعض قانونی ماہرین اسے انتخابی عمل میں استحکام لانے کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ حلقوں کے نزدیک عدلیہ کو اس طرح انتخابی عمل میں شامل کرنا اس کے غیرجانبدار کردار پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔

 

شیئر: