Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹرافیاں اور میڈل دفن کرنا پڑے‘، طالبان کی آمد پر فرار ہونے والی افغان فٹ بالر

افغان خواتین بٹ بالرز نے پچھلے مہینے مراکش میں ہونے والے فیفا کے ایونٹ میں حصہ لیا تھا (فوٹو: اے پی)
’جب طالبان نے 2021 میں پھر ملک کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت مجھ میں مر جانے کی خواہش پیدا ہوئی تھی‘، یہ کہنا ہے کہ افغانستان کی خاتون فٹ بالر مانوز نوری کا، جن کو لگتا تھا کہ اب وہ فٹ بال نہیں کھیل پائیں گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 22 سالہ مانوز نوری انہی دنوں ملک سے فرار ہو گئی تھیں اور افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہاں کے حکام نے ’جنسی نسل پرستی‘ کا نفاذ کیا ہے۔
ان کے علاوہ دوسری فٹ بالر بھی طالبان کے آتے ہی ملک سے نکل گئی تھیں، جو پچھلے دنوں مراکش میں ہونے والے ایک ایونٹ کے موقع پر اکٹھی ہوئیں اور ’افغان رفیوجی ویمن‘ نام کی ٹیم کی جانب سے کھیلتی ہیں جنہوں نے پہلی بار ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔
نوری، جو اب 22 سال کی ہیں، اس ملک سے فرار ہو گئی ہیں جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حکام نے "جنسی نسل پرستی" کا نفاذ کیا ہے، اور حال ہی میں مراکش میں اپنی نوعیت کے پہلے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی، افغان مہاجر خواتین کی ایک ٹیم میں کھیل رہی ہے۔

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے پر کئی خواتین کھلاڑیوں نے ملک چھوڑ دیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نوری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے خود سے پوچھا کہ کیا مجھے اس ملک میں اور ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو خواتین کو پڑھنے لکھنے، کھیلنے اور ہر چیز سے منع کرتے ہیں۔‘
طالبان حکام جن کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق اسلامی قوانین کے تحت محفوظ ہیں، نے 12 سال کی عمر کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ وہ زیادہ تر ملازمتوں کا حصہ بھی نہیں بن سکتیں اور ان کی کھیلوں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی ہے۔
مانوز نوری نے اپنے ملک کے لیے کھیلنے کے عزم کے سامنے اپنے خاندان کے دباؤ کو بھی مسترد کر دیا تھا اور طالبان کے حکومت میں آنے سے قبل وہ ملک کی فٹ بال سکواڈ کا حصہ رہیں۔

 


مانوز نوری اور فاطمہ حیدری کے علاوہ دیگر افغان کھلاڑیوں نے ’پناہ گزین ٹیم‘ کے طور پر ملک کی نمائندگی کی (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے میڈلز اور ٹرافیز کو گھر کے پیچھے دفن کیا اور آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو گئی۔‘
افغان خواتین کی ٹیم نے پچھلے مہینے مراکش میں ہونے والے فیفا کی ویمنز سیریز میں حصہ لیا اور نوری وہ کھلاڑی تھیں جنہوں نے چاڈ کے خلاف ہونے والے پہلے میچ میں اپنی ٹیم کے لیے پہلا گول کیا۔
اگرچہ ان کی ٹیم کو چاڈ اور تیونس کی ٹیموں کے ساتھ مقابلے میں ہار کا سامنا کرنا پڑا تاہم لیبیا سے سات صفر کے ساتھ میچ جیتا اور یہ ایونٹ افغان خواتین کھلاڑیوں کی ایک بڑی جیت کے طور پر سامنے آیا۔
خیال رہے 14 اپریل سے مراکش میں شروع ہونے والے فیفا کے ایونٹ کے موقع پر افغانستان سے نکل کر مختلف ممالک میں پناہ لینے والی خواتین کھلاڑیوں کو کھیلنے کی دعوت دی گئی تھی جس کے بعد وہ میچز کھیلنے کے لیے پہنچیں اور افغان ویمن یونائیٹڈ ٹیم کی جانب سے شرکت کی۔
اٹلی سے آنے والی کپتان فاطمہ حیدری کا کہنا ہے کہ ’ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، ہم نے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا اور پھر ایک ساتھ کھیلے۔‘
اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کھلاڑیوں کی برسوں کی لابنگ کے بعد ممکن ہوا تھا اور اس کے لیے سابق کپتان اور ایکٹیوسٹ خالدہ پوپل کے علاوہ انسانی حقوق کے گروپس کی کوششیں شامل رہیں اور ٹیم کو مقابلے میں واپس لانے کے لیے کردار ادا کیا تھا۔

شیئر: