Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پہاڑوں کے نیچے دھماکے ہو رہے ہیں‘، زلزلے سے متاثرہ ہنزہ کے شہری خوفزدہ

مقامی لوگوں کے مطابق 45 گھر دراڑیں پڑنے کی وجہ سے رہنے کی قابل نہیں رہے (فوٹو: حسن علی)
گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے بلند و بالا پہاڑوں کے نیچے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ مقامی آبادی کے مطابق زمین کے اندر سے آنے والی پراسرار دھماکوں جیسی آوازیں لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہیں۔
زلزلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ اس علاقے کے درجنوں خاندان اب کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ ماہرین ان زیرِ زمین حرکات کی حقیقت جاننے کی کوشش میں ہیں۔
18 اکتوبر کو زلزلے کے جھٹکوں کے بعد ہنزہ کے ایک دورافتادہ علاقے چپورسن میں واقع ریشت گاؤں کے بیشتر گھر متاثر ہوئے۔
مقامی لوگوں کے مطابق 145 گھروں میں سے 45 گھر دراڑیں پڑنے کی وجہ سے رہنے کی قابل نہیں رہے جبکہ کچھ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ 
ریشت گاؤں کے رہائشی وحید کاظم کے مطابق زیر زمین پراسرار آوازیں اب بھی سنائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑوں کے نیچے دھماکے ہو رہے ہوں۔ یکم نومبر کو رات دو بجے کے قریب خوفناک آواز سنی گئی جو اس قدر شدید تھی کہ ہنزہ تک سنائی دی۔ زوردار آواز اور جھٹکوں کے ساتھ تمام لوگ خوف سے بیدار ہو گئے۔
شہری وحید کاظم کا کہنا تھا کہ ’آئے روز زیر زمین ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے گاؤں کے بچے اور خواتین نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں جیسے ہی زمین ہلتی ہے تو ہم سب دوڑ کر گھروں سے باہر آ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس علاقے میں پہلی کبھی ایسی پراسرار آوازیں نہیں سنی گئیں۔‘ 
چپورسن وادی کے ایک سماجی ورکر حسن علی کے مطابق دھماکوں کی آوازوں کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چپورسن کی شاہراہ کئی دنوں تک ٹریفک کے لیے بند رہی۔
انہوں نے کہا کہ روزانہ پہاڑوں سے پتھر گرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ ریشت اور شیر سبز گاؤں کے متعدد افراد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جن میں بزرگ افراد اور بچے شامل ہیں۔‘

عبدالکریم کا کہنا ہے کہ ’اس سردی میں چالیس سے زائد خاندان ٹینٹوں میں رہائش پذیر ہیں۔‘ (فوٹو: حسن علی)

چپورسن لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے منیجر عبدالکریم کا مؤقف ہے کہ ’ڈھائی مہینوں سے زمین کے اندر اور پہاڑوں میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جیسے زمین کھسک رہی ہو یا دراڑیں پڑ رہی ہوں تاہم زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد دھماکوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’زمین میں دراڑیں پڑچکی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر متاثر ہوئے ہیں۔ متعدد مکانات میں دراڑیں پڑچکی ہیں جو کہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں اس لیے متاثرین نے ان گھروں میں رہنا چھوڑ دیا ہے۔‘
عبدالکریم کا کہنا ہے کہ ’اس سردی میں چالیس سے زائد خاندان ٹینٹوں میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ اگر برف باری ہوئی تو ان خاندانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔‘
چپورسن لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے منیجر عبدالکریم نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت فوری طور پر ماہرین کی ٹیم بھیج کر اس سارے معاملے کی کھوج کرے تاکہ اس کا سدِباب ہوسکے کیوں کہ مستقبل میں بھی اگر خطرات موجود رہتے ہیں تو اہلیان علاقہ کے لیے متبادل منصوبہ بنایا جائے۔‘
صوبائی حکومت کا مؤقف 
گلگت بلتستان میں معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کا کہنا ہے کہ ’چپورسن حالیہ زلزلوں سے متاثرہ علاقہ ہے جو آفت زدہ ہے اس وقت چالیس سے زائد گھر متاثر ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر شدید سردی میں رہنے پر مجبور ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علاقے کا جیولوجیکل سروے کیا گیا ہے جس کی رپورٹ وفاق کو ارسال کردی گئی ہے۔‘ 

محکمۂ موسمیات نے کچھ روز قبل ماہرینِ ارضیات پر مشتمل ماہرین کی ٹیم متاثرہ علاقے بھیجی (فوٹو: حسن علی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’زیر زمین دھماکوں کی وجوہات جاننے کے بعد ہی حکومت کوئی بھی لائحہ عمل طے کرے گا۔ خدشات اگر زیادہ ہوئے تو متاثرہ افراد کو متبادل محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے فی الوقت متاثرہ خاندانوں کو ٹینٹ اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے جبکہ ان علاقوں میں انتظامیہ کی ٹیمیں بھی ہمہ وقت موجود ہیں۔‘ 
دوسری جانب محکمۂ موسمیات نے کچھ روز قبل ماہرینِ ارضیات پر مشتمل ماہرین کی ٹیم متاثرہ علاقے بھیجی، جس نے وادی میں ہونے والے پراسرار دھماکوں اور زمینی جھٹکوں کی تفصیلی تحقیقات کیں۔
ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو ارسال کر دی گئی ہے تاکہ مستقبل کے لیے حفاظتی اور انتظامی اقدامات کیے جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’متاثرین کی امداد کے لیے فنڈز کے حصول کے لیے وفاق کو مراسلہ لکھ دیا گیا ہے۔‘

 

شیئر: