امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن، پروازوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی کا اعلان
امریکی حکومت کو ملکی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاؤن کا سامنا ہے جو گزشتہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 36ویں روز میں داخل ہو گیا ہے، اس کے نتیجے میں ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم بھی شدید متاثر ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی سیکریٹری ٹرانسپورٹیشن شان ڈفی نے کہا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرول سیفٹی کے پیش نظر امریکہ کے 40 بڑے ایئرپورٹس پر پروازوں کی تعداد میں دس فیصد کمی کرنے جا رہے ہیں۔
سیکریٹری ٹرانسپورٹیشن کے اس بیان کے بعد ایئر لائنز کو 36 گھنٹوں کے اندر پروازوں کے شیڈیول میں تبدیلی کرتے ہوئے فلائٹس کم کرنا پڑی ہیں۔
شان ڈفی نے کہا کہ فلائٹس کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جا سکتا ہے اگر ڈیموکریٹس شٹ ڈاؤن کو ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
امریکی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاؤن کے باعث 13 ہزار ایئر ٹریفک کنٹرول عملہ اور 50 ہزار ٹرانسپورٹیشن سکیورٹی کا عملہ بغیر تنخواہوں کے کام کرنے پر مجبور ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈیموکریٹس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ فنڈنگ بل پر تنازع کو ختم کریں تاہم اپوزیشن جماعت کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کیئر پر سبسیڈیز کے حوالے سے ریپبلکنز بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
شٹ ڈاؤن کے بعد سے ہزاروں کی تعداد میں پروازیں تاخیر کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ ایئر لائنز کا کہنا ہے کہ 32 لاکھ مسافر متاثر ہوئے ہیں۔
سیکریٹری ٹرانسپورٹیشن شان ڈفی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی فضائی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔
اگرچہ حکومت نے متاثرہ 40 ہوائی اڈوں کی شناخت نہیں کہ لیکن 30 مصروف ترین ہوائی اڈوں کے حوالے سے امکان ظاہر کیا گیا ہے جن میں نیو یارک سٹی، واشنگٹن، ڈی سی، شکاگو، اٹلانٹا، لاس اینجلس اور ڈیلاس شامل ہیں۔ ایوی ایشن ماہرین کے مطابق اس اقدام سے 1800 پروازیں اور 268,000 ایئر لائن سیٹیں کم ہو جائیں گی۔
اس کا مقصد ایئر ٹریفک کنٹرول عملے پر دباؤ کم کرنا ہے، ایف اے اے کو پہلے ہی اپنے ہدف سے 3500 عملے کی کمی کا سامنا ہے جبکہ شٹ ڈاؤن سے قبل بھی کئی اہلکار اپنے اوقات سے زیادہ اور ہفتے میں چھ روز کام کرنے پر مجبور تھے۔
یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے اس شٹ ڈاؤن کے باعث کم آمدنی والے امریکیوں کو امدادی خوراک نہیں مل سکی، سروسز فراہم کرنے والے اکثر سرکاری ادارے بند ہیں جبکہ تقریباً 7 لاکھ 50 ہزار وفاقی ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے۔
