Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آر ایس ایس پر انڈیا سے پہلے پاکستان میں پابندی کب اور کیوں لگی؟

گذشتہ ماہ پاکستان اور انڈیا میں عوامی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں دو موضوعات اور واقعات کثرت سے زیر بحث رہے۔
پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی تنظیم پر پابندی لگی اور انڈیا میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے قیام کی سو سالہ تقریبات ہوئیں۔
سرحد کے دونوں اطراف ان دو مختلف موضوعات میں بظاہر صرف ایک قدر مشترک ہو سکتی ہے۔ وہ ہے مذہبی حوالے سے شدت پسندانہ خیالات اور سیاسی طرز عمل میں انتہا پسندانہ سوچ کا غلبہ۔
نظریات اور خیالات کی بحث اپنی جگہ مگر ایک تاریخی حوالہ دونوں واقعات کے درمیان ربط کی ایک باریک لکیر کھینچتا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان پہ پابندی سے جنم لینے والے مباحث میں ماضی میں حکومتی پابندیوں کی زد میں آنے والی تنظیموں اور جماعتوں کا ذکر ہوتا رہا۔
عموماً اس فہرست کا آغاز 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پہ لگنے والی پابندی کے ذکر سے کیا جاتا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور فرقہ واریت میں ملوث مذہبی گروپوں کے تذکرے کے بعد ٹی ایل پی کو بھی اس فہرست میں رکھا جاتا ہے۔
انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کی نظریاتی ماخذ اور تنظیمی وسعت کی محرک راشٹریہ سیوک سنگھ ہے۔ اس جماعت  کے پاکستان مخالف ایجنڈے اور اشتعال انگیز پراپیگنڈے کا علم تو سبھی کو ہے۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ یہ تنظیم کبھی پاکستان میں بھی وجود رکھتی تھی۔
اس تحریر کے قارئین کے لیے یہ انکشاف شاید ناقابل یقین ہو کہ پاکستان کی تاریخ میں راشٹریہ سیوک سنگھ پہلی تنظیم تھی جس پر پابندی عائد کی گئی۔
شاید بر صغیر کی تاریخ اور سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیے بھی یہ بات نئی ہو کہ اس تنظیم پر انڈیا سے پہلے پاکستان نے پابندی عائد کی تھی۔

ترکیہ میں مقیم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی افتخار گیلانی نے آر ایس ایس کی تاریخ و نظریات پر تحقیقی کام کیا ہے۔
اردو نیوز سے اس تنظیم پر پابندیوں کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پر مجموعی طور پر چار دفعہ پابندی لگی۔ پہلی بار گاندھی جی کے قتل کے بعد، دوسری بار انڈیا میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران اور تیسری دفعہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد۔ مگر یہ تمام پابندیاں مخصوص وقت کے لیے تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تقسیم سے پہلے اس تنظیم پر انگریزوں کے دور میں صرف چار دنوں کے لیے پابندی عائد ہوئی۔ چونکہ آر ایس ایس کا نظریہ انگریز دشمنی نہیں تھا اس لیے  پابندی واپس لے لی گئی۔
پاکستان نے پابندی کب اور کیوں لگائی؟
نومبر 1947 کے پہلے ہفتے میں اس وقت کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ایس ایچ رضا نے ایک حکم نامے کے ذریعے کراچی میں ہندوتوا کی پرچارک آر ایس ایس پر پابندی کا اعلان کیا۔
اعلامیے کے مطابق سندھ پبلک سیفٹی آرڈیننس 1947 کے مطابق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی۔
سرکاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سندھ مینٹیننس آرڈیننس کے سیکشن 9 کے تحت اس تنظیم کے جھنڈوں، یونیفارم، بینرز اور مخصوص شناختی علامت کو آویزاں کرنا اور اس کی نمائش کرنا خلاف قانون ہوگا۔ ان ممنوعہ اشیا یا علامات کہ برآمد ہونے کی صورت میں رکھنے والے کو سزا کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔

لال کرشن ایڈوانی کی آر ایس ایس کے ساتھ رفاقت کا آغاز بھی کراچی سے ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی کے مجسٹریٹ نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور راشٹریہ سوا دل نامی تنظیموں کی کسی بھی طرح کی سرگرمیوں، تنظیمی اجتماعات یا اپنا پیغام عام کرنے کی کوششوں کو عوامی تحفظ کے لیے خطرے کی وجہ سے ممنوع قرار دیا تھا۔
آج بھی راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکنوں کی سب سے بڑی پہچان ان کی مخصوص یونیفارم میں جسمانی ورزش اور فوجی نوعیت سے ملتی جلتی مشقیں اور مارچ ہے۔ پاکستان میں لگنے والی پابندی میں بھی اس کی پہچان والی تمام سرگرمیوں کو خلاف قانون قرار دیا گیا تھا۔
ایس ایچ رضا کے جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن میں اس ضابطے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والوں کو ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں تقسیم سے قبل ہندو مذہب کے ماننے والوں کی کثیر تعداد آباد تھی۔ ملک کے پہلے دارالحکومت کراچی ہندو کمیونٹی کی کاروباری سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کا مضبوط مرکز تھا۔
آر ایس ایس کی سو سالہ تاریخ کے اکثر تذکروں میں پاکستان میں اس کے تنظیمی وجود کا سب سے بڑا حوالہ انڈیا میں اسے پروان چڑھانے اور نمایاں سیاسی قوت میں ڈھالنے والی ایک نامور سیاسی شخصیت سے جڑا ہوا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر اور انڈیا کے سابق وزیر داخلہ اور اپوزیشن لیڈر 98 سالہ لال کرشن ایڈوانی کی آر ایس ایس کے ساتھ رفاقت کا آغاز بھی کراچی سے ہوا تھا۔

قیام پاکستان کے مطالبے سے شدید نفرت نے آر ایس ایس کو قائد اعظم کی جان لینے کا منصوبہ بنانے تک پہنچا دیا (فوٹو: اے ایف پی)

آر ایس ایس کی قائد اعظم کو قتل کرنے کی سازش
لال کرشن ایڈوانی 1927 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ سندھ پیٹرکس ہائی سکول سے تعلیم پائی۔ 14 سال کی عمر میں وہ آر ایس ایس کے ایک مقامی کارکن رام کرپلانی کی وساطت سے اس تنظیم سے متعارف ہوئے۔
اپنی سوانح عمری ’میرا وطن میری زندگی‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ  کراچی آر ایس ایس کے مقامی رہنما شری راجپال پوری کے  خیالات نے اس تنظیم کے نظریات ان کے دل میں راسخ کیے۔ ان کی زندگی اور ذات پر ان کے لیڈر کے خیالات کی چھاپ بہت گہری ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے زندگی  میں انہیں متاثر کیا تو وہ اپنے والدین کے علاوہ راجپال پوری کا نام لیں گے۔
راشٹریہ سیوک سنگ کی تعلیمات کے زیر اثر وہ کانگرس کی قومی آزادی کی تحریک کے مخالف تو تھے ہی مگر یہ جماعت مسلمانوں کے بارے میں اس قدر متعصبانہ رویہ رکھتی تھی کہ بقول ایڈوانی ’جب آر ایس ایس کے ایک پرچارک کی زبانی دو قومی نظریے کے بارے میں پہلی بار پتہ چلا تو گویا یوں محسوس ہوا کہ میں نے برقی تار کو چھو لیا ہو اور مجھے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ اسی لمحے یہ نظریہ مجھے قابل نفرت لگا۔‘
قیام پاکستان کے مطالبے سے شدید نفرت کے جذبے نے آر ایس ایس کو 14 اگست 1947 کو کراچی میں قائد اعظم کی جان لینے کا منصوبہ بنانے تک پہنچا دیا۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے 2001 میں دورہ انڈیا کے دوران آگرہ مذاکرات کی ناکامی کے پس پردہ ذمہ داروں میں ایک نام ایڈوانی کا بھی تھا۔ انہوں نے 2002 میں انڈیا کے وزیر داخلہ کے طور پر میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں پرویز مشرف کو ان کے ملک میں انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک قرار دیا تھا۔
جواب میں پاکستانی میڈیا میں ایڈوانی کے خلاف 10 ستمبر 1947 کو جمشید کوارٹرز تھانہ کراچی میں درج ایک ایف آئی ار کا تذکرہ ہونے لگا۔ جس میں ایڈوانی سمیت 19 افراد کو نامزد کیا گیا تھا کہ انہوں نے قائد اعظم پر حملہ کرنے کی سازش تیار کی تھی۔

مبینہ سازش کی اطلاع کے بعد قائد اعظم سے پروگرام ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی جسے انہوں نے مسترد کر دیا (فوٹو: اے ایف پی)

تقسیم ہند کے تناظر میں لکھی گئی لیری کولن اور ڈومینیک لیپرے کی کتاب ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں بیان کردہ واقعات سے کراچی میں آر ایس ایس کی طرف سے قائد اعظم اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر کراچی کی سڑکوں پر استقبالیہ جلوس کے دوران بم حملے کا منصوبہ بنانے کا اشارہ ملتا ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 14 اگست 1947 کو کراچی میں محمد علی جناح کے ساتھ ایک سرکاری تقریب میں شریک ہونا تھا۔ ایک روز قبل انہیں سی آئی ڈی کے مقامی افسر جی ڈی سیویج نے خفیہ ذرائع کی اطلاع کی بنیاد پر آگاہ کیا کہ اگلے روز آر ایس ایس انہیں اور قائد اعظم کو کھلی کار میں الفنٹس سٹریٹ سے گزرتے ہوئے بم دھماکے میں نشانہ بنانے کی تیاری کر چکی ہے۔
ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مبینہ سازش کی اطلاع کے بعد قائد اعظم سے پروگرام ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔
مصنف کے مطابق سفر کے آغاز میں دونوں خطرات میں اتنے گھرے ہوئے تھے کہ جب سے کار میں بیٹھے تھے ایک دوسرے سے ایک لفظ بھی نہ بولا تھا۔ طویل راستے میں دونوں اطراف استقبالیہ ہجوم نعرے لگا رہا تھا اور ماؤنٹ بیٹن ان کے چہروں سے حملہ آوروں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خفیہ اداروں کی اطلاع کے برعکس کار پر کوئی بم حملہ نہیں ہوا۔
باحفاظت واپسی پر قائد اعظم نے ماؤنٹ بیٹن کے گھٹنے پر پنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے میں آپ کو زندہ واپس لے آیا ہوں۔‘
آر ایس ایس کراچی میں بم بناتی تھی؟
کراچی پولیس کو تقسیم کے ہنگاموں، مہاجرین کے سیلاب اور کراچی سے ہندو اور سکھ آبادی کے انخلا کی وجہ سے اس سازش کے کھوج  لگانے کا موقع ہی نہ ملا۔

کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ دی گزٹ کے مطابق نو ستمبر 1947 کو شکار پوری کالونی کراچی کے ایک گھر میں بم پھٹا جس سے دو افراد ہلاک ہوئے۔ اس دور کے مقامی مجسٹریٹ این اے فاروقی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ بم کا دھماکہ طوطا رام ہنگورانی نامی شخص کی رہائش گاہ پر ہوا تھا۔ سندھ پولیس کے سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ کے ایس پی خان صاحب غلام نے اس کی تحقیق اور تفتیش کی تو اس دھماکے کی کڑیاں کراچی میں قائد اعظم پر حملے کی سازش سے ملنے لگی۔
اس دور کے اخبارات میں چھپنے والی تفصیلات کے مطابق گھر کا مالک دھماکے والے دن کراچی میں موجود نہیں تھا بلکہ وہ اودھے پور گیا ہوا تھا۔ پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس نے جانے سے قبل گھر کی چابیاں سندھ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ملازم گوبند رام بدلانی کے حوالے کی تھیں۔ وہ آر ایس ایس کا ممبر تھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس گھر میں مختلف دھماکہ خیز مواد کی مدد سے بم بنا رہا تھا کہ زیر تکمیل بم پھٹنے سے دھماکہ ہو گیا۔
لال کرشن ایڈوانی نے اپنی کتاب میں اس بم دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نندلانی اور ڈاکٹر طوطا رام ان کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں انڈیا ہجرت کر کے ممبئی میں جا کر آباد ہوئے۔
کراچی پولیس کو جب آر ایس ایس کی مقامی شاخ کے بم دھماکے میں ملوث ہونے کے ثبوت ہاتھ آئے تو ساتھ یہ بھی پتہ لگا کہ کچھ لوگوں کا تعلق قائد اعظم پر حملے کی سازش والے واقعے سے بھی تھا۔
واقعات کی کڑیاں ملا کر پولیس نے 10 ستمبر 1947 کو مقامی تھانے  میں بم دھماکے کا جو مقدمہ درج کیا اس میں قائد اعظم پر مبینہ بم حملے کی منصوبہ بندی کا ذکر بھی تھا۔
ایڈوانی کراچی سے کیوں فرار ہوئے؟
کرشن لال ایڈوانی کا نام بھی کراچی بم دھماکے اور قائد اعظم پر حملے کی مبینہ سازش کے مقدمے میں شامل تھا۔

کے ایل ایڈوانی نے اسلام آباد میں پرویز مشرف اور دیگر اعلی سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی (فوٹو: اے ایف پی)

یہ تاریخ کا انوکھا الٹ پھیر ہے کہ وہی ایڈوانی جون 2005 کو کراچی میں محمد علی جنا ح کی آخری ارام گاہ پر حاضری دینے گئے۔ یہی نہیں بلکہ قائد اعظم کے بارے میں مہمانوں کے تاثرات والی کتاب میں تاریخ ساز رہنما کے الفاظ لکھنے پر انڈیا میں ان کے خلاف ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ان کی اپنی جماعت آر ایس ایس سمیت انتہا پسند جماعتوں اور گروپوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
قائد اعظم کی تعریف کا تنازع بالاخر ایڈوانی کی بی جے پی کی صدارت سے رخصتی کا باعث بنا۔
پاکستان کے انگریزی اخبار دی نیوز نے تین جون 2005 کو اپنے ادارتی نوٹ میں قائد اعظم پر حملے کی ایف آئی ار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اب 2005 میں حکومت ایڈوانی کے خلاف کراچی میں کسی بھی طرح کے مجرمانہ فعل کی ایف آئی ار سے لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے۔ اخبار جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو ایڈوانی اس وقت کراچی میں موجود تھے۔ اس سے قبل وہ اسلام آباد میں پرویز مشرف اور دیگر اعلی سیاسی رہنماؤں سے مل چکے تھے۔ جس دوران انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے غیر روایتی اور جرات مندانہ خیالات کا اظہار کیا۔
قیام پاکستان سے قبل کراچی میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے 20 سالہ رہنما کے روپ میں انہوں نے اس تنظیم کے نمایاں اور نظریاتی طور پر پختہ کارکنوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے تین تربیتی کورسز بھی مکمل کر لیے تھے۔
اس دور میں کراچی اور اندرون سندھ کی ہندو کمیونٹی میں آر ایس ایس ایک نمایاں قوت کے طور پر موجود تھی۔ کے آر ملکانی کی ادارت میں کراچی سے اس تنظیم کا رسالہ ’آرگنائزر‘ کے نام سے چھپتا تھا۔
کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ’دی گزٹ‘ کے ایڈیٹر ایس ایم شرما نے اکتوبر 1947 میں دلی میں اخباری مدیروں کی ایک کانفرنس سے خطاب میں سندھی ہندوؤں میں تقسیم سے پائے جانے والے اضطراب اور صوبے سے انخلا  کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا تھا کہ سندھ میں آباد ہندو کمیونٹی کے 10 میں سے سات افراد کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں آر ایس ایس سے ہے۔ اور وہ صوبے کے مخصوص سیاسی اور سکیورٹی حالات میں کسی نہ کسی انداز میں اس کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔

کرشن لال ایڈوانی کو ساتھیوں نے خبردار کر دیا تھا کہ پولیس ان کی تلاش کے لیے  گھیرا تنگ کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

13  ستمبر 1947 کو کراچی پولیس نے بم دھماکے سے وابستہ افراد کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے کے لیے آر ایس ایس سے وابستگی یا ہمدردی کے شبہہ میں جمشید کوارٹرز، کاسمو پولیٹن کالونی اور سولجر بازار کے علاقے میں واقع گھروں پر چھاپے مارے۔
دی گزٹ میں شائع تفصیلات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے سندھ کے سابق وزیر نہال چند سی وزیرانی، انڈین آرمی کے آفیسر مہاتما جگاسیا، کراچی کارپوریشن کے ملازم لکھی مت جگاسیا، امپیریل کیمیکل انڈسٹری کے مالک پیتم برداس ،شہر کے سابق ایڈیشنل مجسٹریٹ جی کے بھگت اور سندھ فلور مل کے مالک مسٹر سپاری والا کی تلاش میں تھے۔ ان بااثر اور نامور افراد پہ بم دھماکوں کی سہولت کاری اور ممکنہ طور پر تخریب کاری کی دیگر وارداتوں کی منصوبہ بندی کاشبہہ تھا۔
یہ تمام لوگ یا تو کراچی شہر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا پھر زیر زمین ہونے کی وجہ سے گرفتاریوں سے بچ گئے۔ البتہ ایڈوانی کے قریبی ساتھی کھن چند گوپال داس ایڈوکیٹ اور ڈاکٹر تلو مل دھروانی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔
کرشن لال ایڈوانی کے مطابق انہیں ساتھیوں نے خبردار کر دیا تھا کہ پولیس ان کی تلاش کے لیے  گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ انہیں جلد از جلد کراچی چھوڑ دینا چاہیے۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے وہ گرفتاریوں اور چھاپوں سے ایک دن قبل 12 ستمبر کو ہوائی جہاز کے ذریعے دلی پرواز کر گئے۔
آر ایس ایس کے پاکستانی پس منظر رکھنے والے نامور رہنما
کراچی میں آر ایس ایس کی تنظیم پر پابندی کی وجہ سے اس کے روپوش رہنما اور زیر زمین تنظیمی نیٹ ورک سے منسلک کارکن مہاجرین کے قافلوں کے ساتھ پاکستان چھوڑنے لگے۔ ان میں بہت سارے رہنماؤں نے بعد کے ادوار میں اس تنظیم کی مختلف شاخوں اور اس کے  سب سے پہلے سیاسی ونگ بھارتیہ جن سنگھ کی اگلی صفوں میں جگہ پائی۔

قیدیوں کے تبادلے میں آر ایس ایس کے کراچی میں قید 18 سیوکوں کو بھی رہائی ملی (فوٹو: اے ایف پی)

ان میں سے جھمٹ مل ٹی وادہونی بھارتیہ جن سنگھ کے مرکزی سیکریٹری فنانس بنے۔ مبشو ایڈوانی کراچی سے جانے کے بعد مہاراشٹر میں جن سنگھ کے اہم رہنما اور ریاست کے وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انڈیا میں مزدوروں کی ملک گیر تنظیم مزدور سنگھ کے مرکزی صدر رہنے والے مہنر مہتا بھی کراچی میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
ایڈوانی کے سرپرست راج گوپال جی ان دنوں تنظیم کی کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے دلی میں موجود تھے۔ کراچی کے واقعات سے لاعلم ہونے کی وجہ سے انہوں نے واپسی کی راہ لی۔ واپسی کے سفر کے دوران سکھر میں انہیں تنظیم نے گرفتاریوں اور چھاپوں سے آگاہ کیا تو وہ خفیہ طور پر کراچی اور پھر وہاں سے انڈیا ہجرت کر گئے۔
ڈیلی گزٹ کے مطابق آر ایس ایس سے وابستہ 27 کارکنوں اور رہنماؤں کو 21 ستمبر 1947 کو کراچی کہ ایڈیشنل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے نامور وکیل کھن چند گوپال داس سمیت 18 لوگوں کی ضمانتیں مسترد کر دیں۔ ان گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں سے پولیس ان کے تنظیمی نیٹ ورک کا مزید سراغ لگانے کی کوشش کرتی رہی۔
اسی دوران پاکستان اور انڈیا میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے باعث دونوں طرف کی جیلوں میں قید افراد کا تبادلہ ہوا۔ اگلے مرحلے میں سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے انہیں سرحد کے دونوں طرف بھیجا گیا۔ اسی تبادلے میں آر ایس ایس کے کراچی میں قید 18 سیوکوں کو بھی رہائی ملنی تھی۔
ایڈوانی ان قیدیوں کو لانے کے لیے فیروز پور گئے۔ یہاں ان کی ملاقات کھن چند گوپال سے ہوئی جس سے انہیں معلوم ہوا کہ کہ ان کی تنظیم کے سارے لوگوں کو رہا نہیں کیا گیا۔

دوسری بار 1975 میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران دیگر تنظیموں کی طرح آر ایس ایس بھی پابندی کی زد میں آگئی (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت پاکستان ان لوگوں سے مزید تفتیش کرنا چاہ رہی تھی۔ دوسری طرف ایڈوانی نے اپنے کارکنوں کی رہائی کے لیے پٹیل کے نائب سے رابطہ کیا۔ اس دور کے انڈیا کے وزیر داخلہ پٹیل کی کوششوں سے آر ایس ایس کے بقیہ کارکن بھی رہا ہو کر انڈیا چلے گئے۔
گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے راشٹریہ سیوک سنگھ سے تعلق کی وجہ سے انڈیا میں 1948 میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ بعد میں انڈین پرچم کو تسلیم کرنے، پرتشدد واقعات سے لا تعلق رہنے اور سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی پر پٹیل نے یہ پابندی ہٹا دی۔
دوسری بار 1975 میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران دیگر تنظیموں کی طرح آر ایس ایس بھی پابندی کی زد میں آگئی۔ ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد ہونے والے الیکشن میں اس کے سیاسی چہرے جن سنگھ  جنتا پارٹی میں ضم ہو کر شریک اقتدار ہو گیا۔ راشٹریہ سیوک  سنگھ کے دو اہم رہنما واجپائی اور ایڈوانی اسی حکومت میں وزیر بنے۔ جنتا پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آر ایس ایس کے نظریے سے متاثر سیاست دانوں نے بی جے پی کی بنیاد رکھی۔
اپنے قیام کے سو  برس بعد آر ایس ایس انڈیا کے سماج اور سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے۔ ہندوتوا کے نظریے کے پرچار نے اسے سیاسی اور تنظیمی قوت تو عطا کر دی ہے مگر انڈین سماج اس کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں اس تنظیم پر پابندی کا نوٹیفکیشن شاید کہیں متروک ہو چکا ہے۔ اسی لیے سرکاری سطح پر غیرقانونی قرار دی جانے والی تنظیموں میں آر ایس ایس کا نام کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

 

شیئر: