لیبیا کشتی حادثہ: گرفتاریاں، سزائیں اور مفرور ملزمان، اب تک کیا ہوا؟
جمعہ 7 نومبر 2025 6:15
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پاکستان میں کئی برسوں سے جاری انسانی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لیبیا کشتی حادثے کے بعد آئی اور اس کیس میں گرفتار دو ملزمان کو قید کی سزا سنائی گئی ہے تاہم اب بھی 20 سے زائد نامزد ملزمان مفرور ہیں جن کے خلاف انٹرپول ریڈ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
بدھ کے روز صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی ایک خصوصی عدالت نے دو مبینہ انسانی سمگلروں ندیم اسلم اور محمد اسلم کو 2023 کے لیبیا کشتی سانحے سے متعلق ایک کیس میں 20 سال سخت قید اور 14 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
ملزمان کو ایک ماہ قبل 27 اکتوبر کو ایک الگ کیس میں بھی اسی عدالت نے ایسی ہی سزا دی تھی۔ دونوں کیسز لیبیا سے یونان جانے والی وہ دردناک کشتی کے سانحے سے جڑے ہوئے ہیں جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔
ندیم اسلم اور محمد اسلم: ’انسانی سمگلنگ کے ماہر‘
دونوں مجرم ندیم اسلم اور محمد اسلم گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں اور انسانی سمگلنگ کے ایک منظم نیٹ ورک کے اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔
ندیم اسلم جو تقریباً 45 سالہ ہے گوجرانوالہ کے علاقے چوہدریاں والا سے تعلق رکھتے ہیں اور مقامی طور پر ’نیٹ ورک کا ماسٹر مائنڈ‘ کہلاتے ہیں۔ 2023 کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ دبئی اور لیبیا کے راستوں سے سینکڑوں نوجوانوں کو یورپ بھیجنے کے ذمہ دار تھے۔
جون 2023 میں جب لیبیا سانحے کی خبر پھیلی تو ایف آئی اے نے فون کالز اور بینک ٹرانزیکشنز کی بنیاد پر انہیں گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت ندیم اسلم کے پاس سے جعلی دستاویزات اور سمگل شدہ مسافروں کی فہرستیں برآمد ہوئیں جو انہیں براہ راست سانحے سے جوڑتی تھیں۔
محمد اسلم جن کی عمر 42 سال ہے گوجرانوالہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ندیم کے قریبی ساتھی ہیں۔ پراسیکیوشن کے مطابق وہ اس سارے معاملے میں ’'فنانشل ہینڈلر‘ کا کردار ادا کر رہے تھے یعنی سمگل شدہ افراد سے پیسے اکٹھے کرنا اور انہیں لیبیا کے ایجنٹوں تک پہنچانا۔
ان کو بھی جون 2023 میں گرفتار کیا گیا جب ایک بچ جانے والے مسافر کی نشاندہی پر ایف آئی اے نے گوجرانوالہ میں ایک گھر پر دھاوا بولا۔ گرفتاری کے دوران ان کے کمپیوٹر سے لیبیا کے سمگلروں سے ویڈیو کالز کی ریکارڈنگز بھی ملیں جو سانحے سے پہلے کی تھیں۔
دونوں ملزمان کی سرگرمیاں 2020 سے جاری تھیں اور انہوں نے مجموعی طور پر کم از کم 50 خاندانوں سے لاکھوں روپے ہڑپ کیے۔ ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات میں ان کا نام 2023 کی ریڈ بک میں شامل ہوا اور اب ان کی سزاؤں سے ثابت ہو گیا کہ وہ اس سانحے کے براہ راست ذمہ دار تھے۔
گرفتاریاں، سزائیں اور مفرور ملزمان: اب تک کیا ہوا؟
اس سانحے کے بعد پاکستان میں ایف آئی اے نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی۔ ابتدائی طور پر جون 2023 میں 10 سمگلروں کو گرفتار کیا گیا جو اس سانحے سے براہ راست جڑے تھے۔
جولائی 2023 تک مزید 6 گرفتار ہوئے اور اکتوبر تک 30 سے زائد ملزمان پکڑے جا چکے تھے۔ نومبر 2025 تک ایف آئی اے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس کیس اور متعلقہ سمگلنگ نیٹ ورکس میں 1600 سے زائد انسانی سمگلر گرفتار ہوئے جن میں سے کم از کم 50 اس مخصوص سانحے سے جڑے ہوئے تھے۔
سزاؤں کے حوالے سے اب تک کم از کم 10 ملزمان کو قید کی سزائیں ہو چکی ہیں جن میں ندیم اسلم، محمد اسلم اور محمد ممتاز بھی شامل ہیں۔ گوجرانوالہ اور لاہور کی عدالتوں میں 15 سے زائد کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے جہاں 17 سے 20 سال کی قید اور لاکھوں روپے جرمانے عائد کیے گئے۔
تقریباً 20 ملزمان ابھی ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں جن کی سماعتیں گوجرانوالہ، راولپنڈی اور فیصل آباد کی خصوصی عدالتوں میں جاری ہیں مگر اب بھی 20 سے زائد مفرور ہیں جن کے خلاف انٹرپول ریڈ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
ان میں سے کئی لیبیا، اور یورپ میں چھپے ہوئے ہیں جیسے کہ ’زبیر مہر‘ جیسے کلیدی سمگلر جنہیں جنوری 2025 میں گرفتار کیا گیا۔
2023 لیبیا کشتی سانحہ: خوابوں کا قبرستان
یاد رہے کہ لیبیا میں یہ سانحہ 14 جون 2023 کو پیش آیا جب ایک اوور لوڈ مچھلی پکڑنے والی کشتی ’ایڈریا‘ جو لیبیا کے شہر طبرق سے روانہ ہوئی تھی یونان کے ساحل پلوس کے قریب 80 کلومیٹر دور غرق ہو گئی۔
اس کشتی نے اٹلی پہنچنا تھا لیکن خراب موسم اور اوور لوڈنگ کی وجہ سے اُلٹ گئی۔ کشتی کی گنجائش 400 افراد کی تھی مگر اس پر 750 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے 60 فیصد پاکستانی تھے۔
یونانی حکام کے مطابق سرکاری طور پر 82 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 104 بچ گئے۔ تاہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق اصل ہلاکتوں کی تعداد 500 سے 700 تک ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی لاشیں سمندر میں گم ہو گئیں۔
پاکستان کے حوالے سے وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ کم از کم 350 پاکستانی اس کشتی پر سوار تھے۔ ان میں سے 181 کو بچایا گیا جبکہ 261 ہلاک یا لاپتہ قرار دیے گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے غریب دیہاتوں کے نوجوان شامل تھے جو غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر ’سنہرا خواب‘ دیکھ کر نکلے تھے۔
بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ سمگلرز نے 24، 24 لاکھ روپے لیے اور وعدہ کیا کہ یورپ پہنچنے پر نوکری مل جائے گی، مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا۔
