غیرتربیت یافتہ یا ذاتی مفادات، نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کرپشن میں کیوں ملوث ہیں؟
غیرتربیت یافتہ یا ذاتی مفادات، نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کرپشن میں کیوں ملوث ہیں؟
پیر 10 نومبر 2025 15:41
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
لاہور میں بھی نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کو رشوت ستانی کے جرم میں گرفتار کیا گیا (فوٹو: پکسابے)
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسدادِ بدعنوانی سرکل اسلام آباد نے نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے 13 اعلیٰ افسران، اہلکاروں اور ان کے مبینہ فرنٹ مینوں کے خلاف غیرقانونی کال سینٹرز سے بھاری رشوت اور بھتہ وصول کرنے کے الزام میں سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
حکام کے مطابق کسی بھی نئے قائم ہونے والے سرکاری ادارے بالخصوص ایسے یونٹ، جس کا کام جرائم کو روکنا، تحقیقات کرنا اور ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہو، اس کے اہلکاروں کی جانب سے مبینہ کرپشن کا انوکھا واقعہ ہے۔ جس میں ایک دو نہیں بلکہ درجن سے زائد افسران ملوث ہیں۔
اس سے قبل لاہور میں بھی نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کو رشوت ستانی کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جنہیں عدالت نے ریمانڈ پر دے رکھا ہے جبکہ ان افسران نے اپنے عہدوں سے استعفے بھی دے دیے ہیں۔
یہ واقعات نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام، انتظامی ڈھانچے، قواعد اور مجموعی کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔
اسلام آباد میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109، 161، 386، 420 اور انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ تقریباً 15 غیرقانونی کال سینٹرز بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں سرگرم تھے، جن میں ‘ایم اے کے جے انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ‘، ‘سی ڈریگن کیسینو‘ اور دیگر کمپنیاں شامل تھیں۔ یہ مراکز مبینہ طور پر چینی شہریوں کے زیرِ انتظام کام کر رہے تھے جو پاکستانی ملازمین کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرتے اور آن لائن جوا، مالیاتی فراڈ اور غیر قانونی ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز میں ملوث تھے۔
ایف آئی اے کے مطابق ان مراکز کی سرپرستی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے راولپنڈی آفس کے بعض افسران اور اہلکاروں کی جانب سے کی جا رہی تھی، جنہوں نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بھاری رشوت اور بھتہ وصول کیا۔ ان رقوم کی وصولی کے لیے افسران کے فرنٹ مین ’حسان امیر‘ کو استعمال کیا گیا، جو ’بلو ہاکس‘ نامی نجی سکیورٹی کمپنی کا مالک ہے۔
فرنٹ مین کے ذریعے غیرقانونی رقوم کی تقسیم
ایف آئی آر میں درج ہے کہ حسان امیر کے قریبی تعلقات ایک چینی شہری ’گوا کاسیان عرف کیلون‘ سے تھے جو ان تمام کال سینٹرز کا منتظم اور فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ان دونوں کے ذریعے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے افسران شہزاد حیدر (ایڈیشنل ڈائریکٹر)، حیدر عباس (ڈپٹی ڈائریکٹر) اور محمد بلال (سب انسپکٹر) ہر ماہ بھاری رشوت وصول کرتے رہے۔
نئی ٹیم نے بھی سابقہ افسران کی طرح رشوت وصولی کا سلسلہ جاری رکھا (فوٹو: اے ایف پی)
دستاویز کے مطابق ستمبر 2024 سے اپریل 2025 تک ہر کال سینٹر سے اوسطاً 10 لاکھ روپے فی ماہ کے حساب سے مجموعی طور پر تقریباً 12 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ اس رقم میں سے شہزاد حیدر نے فی کال سینٹر 5.5 لاکھ روپے، حیدر عباس نے 2 لاکھ روپے، محمد بلال نے 2 لاکھ روپے جبکہ فرنٹ مین حسان امیر نے 50 ہزار روپے فی کال سینٹر کے حساب سے حاصل کیے۔
محمد بلال پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ہر نئے غیرقانونی کال سینٹر سے ’کواپریشن فیس‘ کے نام پر 8 لاکھ روپے الگ سے وصول کرتا رہا۔ ایف آئی آر کے مطابق سب انسپکٹر میاں عرفان نے بھی محمد بلال کے ساتھ ملی بھگت سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 11 میں ایک کال سینٹر پر چھاپے کے دوران 4 کروڑ روپے رشوت وصول کی، جو ایک چینی شہری ’لیو لیو‘ کے ذریعے ادا کی گئی۔
نئی انتظامیہ کے تحت بھی رشوت کا سلسلہ جاری
مئی 2025 میں نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کی نئی انتظامیہ تعینات ہوئی جس میں عامر نذیر (ایڈیشنل ڈائریکٹر)، ندیم احمد خان (اسسٹنٹ ڈائریکٹر / ایکٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹر)، سلمان اعوان (ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی بلاسفیمی یونٹ) اور سارم علی (سب انسپکٹر) شامل تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق نئی ٹیم نے بھی سابقہ افسران کی طرح غیرقانونی کال سینٹرز سے ماہانہ ڈیڑھ کروڑ روپے رشوت وصولی کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس سکیم میں طاہر محیی الدین فرنٹ مین کے طور پر کام کرتا رہا جو سارم علی کے لیے رقم جمع کرتا تھا۔ انہی کی ہدایت پر بحریہ ٹاؤن کے ایک کال سینٹر پر چھاپہ مارا گیا جہاں 14 چینی شہری گرفتار ہوئے، جن میں گوا کاسیان عرف کیلون بھی شامل تھا۔ بعد ازاں سارم علی نے ان گرفتار شہریوں کی رہائی کے لیے ایک پاکستانی خاتون اریبہ رباب سے 20 لاکھ روپے رشوت وصول کی جس نے چینی شہری سے شادی کر رکھی تھی۔
ایف آئی آر کے مطابق سارم علی نے گوا کاسیان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیوز ان کی اہلیہ اریبہ رباب کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج کر مزید رقم کے لیے دباؤ ڈالا۔ بعد ازاں، ’لیگل ویریفکیشن‘ کے نام پر مزید 10 لاکھ روپے وصول کیے گئے، یوں مجموعی طور پر اس خاتون سے دو کروڑ 30 لاکھ روپے رشوت لی گئی۔
ایف آئی اے کے مطابق افسران نے مجموعی طور پر 25 کروڑ روپے رشوت وصول کی (فوٹو: اے پی پی)
دستاویز کے مطابق اس رقم میں سے سارم علی نے 17 لاکھ، عثمان بشارت نے 14 لاکھ، ظہیر عباس نیازی نے آٹھ لاکھ، ندیم احمد خان نے 95 لاکھ، عامر نذیر نے 70 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ 25 لاکھ روپے دیگر ذرائع کو دیے گئے۔ ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ سلمان اعوان نے ابتدا میں ہی چینی شہریوں سے براہِ راست مذاکرات کیے اور رشوت کی رقم دو کروڑ روپے طے کی، جس کے ڈیجیٹل شواہد ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں۔
ایف آئی اے کی تفتیش اور مجموعی الزامات
ایف آئی اے کے مطابق نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کے سابق اور موجودہ افسران نے مجموعی طور پر 25 کروڑ روپے رشوت وصول کی، جب کہ بعد ازاں نئی انتظامیہ نے بھی مزید 5 کروڑ روپے رشوت لی۔ ایف آئی آر میں 13 ملزمان کے نام درج ہیں جن میں شہزاد حیدر، حیدر عباس، محمد بلال،عامر نذیر، ندیم احمد خان، سلمان اعوان، سارم علی، میاں عرفان، ظہیر عباس نیازی، عثمان بشارت، حسان امیر اور طاہر محیی الدین شامل ہیں۔
تفتیش کی ذمہ داری اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد صفیر احمد، انسپکٹر محمد وحید خان اور سب انسپکٹر شمس گوندل پر مشتمل ٹیم کے سپرد کی گئی ہے، جبکہ ڈیجیٹل شواہد، واٹس ایپ پیغامات، ویڈیوز اور مالیاتی تفصیلات ایف آئی اے کے قبضے میں لے لی گئی ہیں۔
نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام اور اندرونی مسائل
نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام رواں سال کے وسط میں وزارتِ داخلہ کے تحت عمل میں آیا۔ اس ادارے کو سائبر جرائم کے خلاف مربوط کارروائیاں کرنے کا اختیار دیا گیا۔ تاکہ ملک میں ڈیجیٹل سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کے مقاصد کے برعکس ہیں (فوٹو: اے پی پی)
وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق ’نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی ابھی اپنے قیام کے ابتدائی مرحلے میں ہے، اس لیے افسران کی تربیت، کارکردگی کے معیارات اور احتساب کا نظام کمزور ہے، جس سے ایسے واقعات رونما ہوئے۔‘
سابق ایف آئی اے ڈائریکٹر طارق ملک کے مطابق ’نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا مقصد شفاف ڈیجیٹل تحقیقات اور کثیرالسطحی رابطہ کاری کو بہتر بنانا تھا، لیکن یہ ادارہ جلد ہی انہی روایتی کمزوریوں کا شکار ہوگیا ۔‘
ان کے بقول ’ایسے نئے ادارے جب تیزی سے قائم کیے جاتے ہیں تو ان میں اکثر تربیت یافتہ عملے کی کمی، اختیارات کی غیر واضح تقسیم اور احتسابی فریم ورک کا فقدان ہوتا ہے۔ یہی کمزوریاں بعد میں مالی اور انتظامی بدعنوانی کو جنم دیتی ہیں۔ نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے معاملے میں بھی یہی ہوا.‘
طارق ملک نے کہا کہ ’جب کسی ادارے کو بغیر پالیسی رہنمائی کے فیلڈ میں بھیجا جاتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب آن لائن فراڈ کے کیسز میں دباؤ بڑھا ہو، تو فیلڈ افسران کے لیے اختیارات کا غلط استعمال آسان ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر نئے تحقیقاتی ادارے بھی شفاف احتسابی نظام سے خالی ہوں تو وہ اصلاح کے بجائے بدعنوانی کے نئے مراکز بن سکتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات نیشنل سائبر کرائم اینویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کے مقاصد کے برعکس ہیں بلکہ اس امر کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان میں اگر نئے اداروں کو احتساب، تربیت اور پالیسی رہنمائی کے بغیر فعال کیا جائے تو ان کے افسران قانون کے محافظ کے بجائے ذاتی مفادات کے نگہبان بن جاتے ہیں۔