وزیراعظم کے معاون خصوصی نے لندن میں اسرائیلی وفد سے ملاقات کیوں کی؟
وزیراعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے سیاحت سردار یاسر الیاس خان نے لندن میں جاری عالمی سیاحتی نمائش کے دوران اسرائیلی وفد سے مبینہ ملاقات کی سوشل میڈیا پر خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔
جمعے کو ان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر گذشتہ شب سے متعدد گمراہ کن دعوے گردش کر رہے تھے جن میں کہا جا رہا تھا کہ معاون خصوصی نے کسی اسرائیلی وزیر یا سرکاری نمائندے سے ملاقات کی ہے۔
معاون خصوصی نے واضح کیا کہ یہ تمام خبریں حقائق کے برخلاف اور من گھڑت ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہ لندن میں پاکستان کے سرکاری پویلین کی ’بین الاقوامی سطح پر نمائندگی‘ کر رہے ہیں جہاں دنیا کے 184 ممالک شریک ہیں، اور ہر ملک کے نمائندے سفارتی پروٹوکول کے تحت مختلف پویلینز کا دورہ کرتے ہیں۔‘
’نمائش کے دوسرے دن ایک غیرملکی وفد پاکستانی پویلین پر آیا، جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسرائیل سے تھا۔‘
سردار یاسر الیاس کے مطابق اس دوران صرف ’رسمی مصافحہ، خیرمقدمی جملے اور معلوماتی تعارف‘ ہوا، جو عالمی سفارتی آداب اور نمائش کے ضابطۂ اخلاق کا لازمی حصہ ہے۔ اسے کسی قسم کی ملاقات یا سیاسی رابطہ قرار دینا سراسر غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی نمائشوں میں مختلف ممالک کے وفود بلا امتیاز پویلینز کا دورہ کرتے ہیں اور میزبان ٹیم ہر مہمان کو پروٹوکول کے مطابق خوش آمدید کہتی ہے۔
’اس عمل کو کسی سیاسی ملاقات یا حکومتی پالیسی میں تبدیلی کے طور پر پیش کرنا بدنیتی ہے۔‘
سردار یاسر الیاس نے کہا کہ اسرائیلی وفد نے پویلین کے دورے کی چند تصاویر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری کیں، جنہیں پاکستان میں بعض عناصر نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور جھوٹی کہانی گھڑ کر حکومتی بیانیے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے ریاستی پالیسی مکمل طور پر واضح، دوٹوک اور اصولی ہے، اور وہ خود اس مؤقف پر پوری طرح قائم ہیں۔
’میں کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں رہا جو قومی بیانیے یا پاکستان کے اصولی موقف کے خلاف ہو۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تمام خبریں جھوٹی، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔‘
معاون خصوصی نے اس منفی مہم کو ملک کے وقار پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی بے بنیاد افواہیں نہ صرف حقیقت کے خلاف ہیں بلکہ پاکستان کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش بھی ہیں۔
