Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون کی 80 سالہ تاریخ پر ایک نظر

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اقتصادی تعاون میں گزشتہ 80 برسوں میں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جو ابتدا تیل کے شعبے سے ہوا اور حالیہ برسوں میں دفاع اور ٹیکنالوجی تک پھیل گیا۔
عرب نیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جو تعلق تیل اور گیس پر انحصار سے شروع ہوا تھا، وہ اب وژن 2030 کی بنیاد پر زیادہ متنوع اقتصادی تعاون کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون 1930 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت مضبوط ہوا جب شاہ عبدالعزیز نے امریکی کمپنی سٹینڈرڈ آئل کو 66 سالہ معاہدے کے ذریعے تیل کی تلاش کے حقوق دیے۔ اس سے عرب، امریکن آئل کمپنی، یعنی آرامکو کی تشکیل ہوئی۔
1932  میں سعودی عرب اور امریکہ نے ایک عبوری سفارتی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے، جس نے تجارت کے لیے ابتدائی فریم ورک کی بنیاد رکھی۔
آرامکو کے دمام ویل نمبر 7 نے 1938 میں تجارتی پیمانے پر تیل کی پیداوار شروع کی، جس سے مملکت کی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
1970  کی دہائی کے اوائل میں دونوں ملکوں نے اپنے تجارتی تعلقات کو مزید گہرا کیا۔ 1972 میں، امریکہ سے مملکت کی درآمدات کی مالیت 314 ملین ڈالر تھی، جبکہ مملکت کی برآمدات 194 ملین ڈالر تھیں۔
جون 1974 میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کیا گیا جب امریکی، سعودی مشترکہ کمیشن برائے اقتصادی تعاون تشکیل دیا گیا، جس نے سعودی عرب کی تیل کے علاوہ معیشت کی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں امریکی مہارت فراہم کی۔
دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سعودی عرب میں مقامی منصوبوں پر کام کرنے والی امریکی نجی کمپنیوں کی تعداد بڑھائی جائے۔
دونوں ممالک نے بعد میں دفاع، توانائی، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پر مرکوز شراکت داری کے ساتھ ایک مستحکم اور بڑھتا ہوا اقتصادی تعلق برقرار رکھا۔
2005  میں دونوں ممالک نے تعلیم میں شراکت داری کو رسمی شکل دی اور شاہ عبداللہ سکالرشپ پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے ذریعے ہزاروں سعودی طلبہ نے امریکی جامعات میں تعلیم حاصل کی، جس نے علم پر مبنی معیشت کے لیے طویل مدتی بنیاد رکھی۔
وہائٹ ہاؤس کے ایک حقائق نامے کے مطابق، سعودی عرب اب مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔
2023  میں امریکہ میں مملکت کی براہِ راست سرمایہ کاری 9.5 ارب ڈالر رہی، جو بنیادی طور پر ٹرانسپورٹیشن، رئیل اسٹیٹ اور آٹوموٹو شعبوں پر مرکوز تھی۔
2024  میں امریکی، سعودی دو طرفہ تجارت کا حجم 25.9 ارب ڈالر رہا، جس میں امریکی برآمدات 13.2 ارب ڈالر اور درآمدات 12.7 ارب ڈالر تھیں۔
اقتصادی تعاون کے  حوالے سے ایک اہم پلیٹ فارم رواں سال مئی میں ریاض میں منعقد ہونے والا سعودی، امریکی سرمایہ کاری فورم تھا، جس میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ 300 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
فورم سے خطاب کرتے ہوئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ مملکت 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع دیکھ رہی ہے، اور امید ظاہر کی کہ یہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچیں گے۔
وزیر مواصلات و اطلاعاتی ٹیکنالوجی عبداللہ السواہا نے فورم کے موقع پر سعودی پریس ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تقریب عالمی ڈیجیٹل معیشت کے نقشے پر مملکت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ سعودی عرب خطے کی سب سے بڑی ڈیجیٹل معیشت ہے اور مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں سرمایہ کاری کا مرکز بن چکا ہے۔
18  نومبر سعودی۔امریکی تعلقات میں ایک اور سنگ میل ثابت ہوگا، جب سعودی ولی عہد کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے واشنگٹن میں ہوگی۔
شاہ عبدالعزیز آل سعود اور صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی 1945 میں یو ایس ایس کوئنسی پر ہونے والی ملاقات سے مضبوط ہونے والا یہ تعلق آج بھی قائم و دائم ہے۔
اور یہ روابط اقتصادی توسیع اور ٹیکنالوجی جیسے نئے شعبوں میں پیش قدمی کے ساتھ مزید فروغ پا رہے ہیں۔

 

شیئر: