فرینکلی اسپیکنگ: سعودی ولی عہد کے دورۂ امریکہ سے وابستہ توقعات کیا ہیں؟
فرینکلی اسپیکنگ: سعودی ولی عہد کے دورۂ امریکہ سے وابستہ توقعات کیا ہیں؟
اتوار 16 نومبر 2025 18:33
جیسے ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تاریخی قرار دی جانے والی شیڈول ملاقات کے حوالے سے توقعات بڑھ رہی ہیں، مشرقِ وسطیٰ میں دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے ایک تجربہ کار امریکی سفارتکار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعاون اور شراکت داری کے فروغ کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔
اپریل 2023 سے جنوری 2025 تک سعودی عرب میں امریکی سفیر رہنے والے مائیکل ریٹنی کا عرب نیوز کے ہفتہ وار کرنٹ افیئرز شو ’فرینکلی اسپیکنگ‘ میں گفتگو میں کہنا ہے کہ ’ہمارے تعلقات کی نوعیت اتنی ہی متنوع ہو سکتی ہے جتنی سعودی معیشت بنتی جا رہی ہے۔‘
ریٹنی کے مطابق، سعودی-امریکی تعلقات کو اب محض ’تیل کے بدلے دفاع‘ کے فارمولے تک محدود نہیں کیا جا سکتا؛ اس کے بجائے یہ شراکت داری نئی معاشی حقیقتوں اور بڑھتے ہوئے تعاون کے شعبوں کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب تیل اور دفاع ہی اس تعلقات پر حاوی تھے۔ اور سب سے بڑی تبدیلی دراصل سعودی عرب کے اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے فیصلے سے آئی۔ اور اس نے امریکہ، خصوصاً امریکی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کے بڑے مواقع پیدا کیے۔‘
یہ تبدیلی باضابطہ طور پر 25 اپریل 2016 کو شروع ہوئی، جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وژن 2030 کا اعلان کیا۔ وژن 2030 قومی حکمتِ عملی جس کا مقصد سعودی عرب کو زیادہ متوازن، مسابقتی اور مضبوط معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔
مائیکل ریٹنی کے مطابق اسی وژن کے تحت وہ شعبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جنہیں عام طور پر ’امریکی برانڈز‘ سمجھا جاتا ہے، جیسے مصنوعی ذہانت، قابلِ تجدید توانائی، اور فنون و ثقافت۔
انہوں نے شو کی میزبان کیٹی جینسن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیں سعودی عرب کی امنگیں کیا ہیں؟ جدید ٹیکنالوجی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔ یہ تو ایک طرح سے ’امریکی برانڈ‘ ہے۔ یہاں امریکی صنعت کو بہت بڑا فائدہ حاصل ہے، اور سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری کے مواقع موجود ہیں، جو بہت تیزی سے سرمایہ کاری اور ترقی کرنا چاہتا ہے۔‘
سابق امریکی سفیر نے کہا کہ قابلِ تجدید توانائی بھی ایسا ہی ایک مشترکہ شعبہ ہے۔
’لوگ اندازہ نہیں لگاتے کہ سعودی عرب، جو دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والوں میں سے ہے، وہ قابلِ تجدید توانائی، یعنی ہوا، شمسی توانائی، اور میرا خیال ہے بالآخر جوہری توانائی، میں بھی سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ یہ بھی وہ شعبے ہیں جن میں امریکہ کو تکنیکی برتری حاصل ہے اور شراکت داری کے مواقع موجود ہیں۔‘
اسی طرح، فنون اور ثقافت، جو تاریخی طور پر سعودی معیشت کا ایک چھوٹا حصہ تھا، اب ایک اور بڑے ترقی یافتہ شعبے کے طور پر ابھر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کبھی سعودی معیشت کا بڑا حصہ نہیں رہا، لیکن جیسے جیسے ثقافتی شعبہ کھل رہا ہے، اور سعودی عرب اپنی فلمی صنعت کو ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے، یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
وسیع موضوعات پر مشتمل اس انٹرویو میں مائیکل ریٹنی نے واشنگٹن میں سعودی ولی عہد کے دورے کے حوالے سے اپنی توقعات بیان کیں اور امریکی اتحادوں کی افادیت سے متعلق زیرِ گردش سوالات کا جواب دیا، خصوصاً اسرائیل اور ایران کے قطر پر حملوں، اور 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے اور غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد خطے کی صورتحال کے تناظر میں۔
انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کیا کہ سعودی عرب میں ہونے والے ثقافتی اور تفریحی پروگرام صرف تشہیر کا ذریعہ ہیں۔
مملکت کے بارہا دوروں اور یہاں رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھنے والے مائیکل ریٹنی نے حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل میں ایک مضمون بھی لکھا، جس میں انہوں نے سعودی عرب کے بڑے تفریحی پروگراموں کی میزبانی کرنے کے حق کا دفاع کیا۔
یہ مضمون، جو 23 اکتوبر کو ’ Saudis Just Want to Have Fun’ کے عنوان سے شائع ہوا، اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ کنسرٹس اور کامیڈی فیسٹیول صرف بین الاقوامی پی آر کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔
ستمبر اور اکتوبر میں، ریاض نے بولیوارڈ سٹی میں ایک کامیڈی فیسٹیول کی میزبانی کی، جس میں مختلف مقامی و بین الاقوامی سامعین نے شرکت کی، جن میں جِمی کار، جیک وائٹ ہال، کے ون ہارٹ، رسل پیٹرز اور امید جلیلی جیسے مشہور مزاح نگار شامل تھے۔ سعودی عرب میں عالمی اور علاقائی فنکاروں کے لائیو کنسرٹس بھی باقاعدگی سے منعقد کیے جا رہے ہیں۔