سپریم کورٹ نے 27 ویں ترمیم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار ججز کی درخواست پر کیا اعتراض لگایا ہے؟
سپریم کورٹ نے 27 ویں ترمیم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار ججز کی درخواست پر کیا اعتراض لگایا ہے؟
جمعرات 20 نومبر 2025 15:19
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار ججز نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، تاہم سپریم کورٹ کی ڈائری برانچ نے درخواست پر اعتراض لگا کر اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جمعرات کی شام سامنے آنے والی درخواست میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس پر سپریم کورٹ کی ڈائری برانچ کی جانب سے اعتراض عائد کر دیا گیا۔
ابتدائی طور پر سپریم کورٹ سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق سپریم کورٹ کی ڈائری برانچ نے درخواست پر اعتراض لگایا اور وصول کرنے سے انکار کیا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ یہ معاملہ آئینی نوعیت کا ہے اور سپریم کورٹ مجاز نہیں کہ اس نوعیت کی درخواست سنے۔
اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق ترمیم کو چیلنج کرنے کے لیے ڈرافٹ تیار کر کے سپریم کورٹ بھیجا گیا تھا، تاہم تاحال سپریم کورٹ کی ڈائری برانچ نے اسے وصول نہیں کیا۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے 27 ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے بعد سپریم کورٹ کے دو ججز، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ، اپنے عہدوں سے استعفے دے چکے ہیں جن کے استعفے صدرِ مملکت کی جانب سے منظور بھی کر لیے گئے ہیں۔
اس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ملک کی مختلف عدالتوں سے مزید ایسے استعفے سامنے آ سکتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان کی منظور کردہ کسی بھی آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی عدالت کا قیام کوئی نئی یا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ ریاستی ڈھانچے میں پارلیمان کو بالا دستی حاصل ہے اور یہی اصول برقرار رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سیاست میں انتشار اور انتہا پسندی در آئے تو نہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی نظام چل سکتا ہے، اور ایسی صورت حال میں اکثر سیاسی ڈھانچے کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان آئینی طریقہ کار کے تحت چل رہا ہے۔ آئینی عدالت کا قیام بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
وفاقی وزیرِ قانون و انصاف نے مزید کہا کہ آئین میں ترمیم کا مکمل طریقہ کار درج ہے اور پارلیمان کو آئینی ترامیم کا مکمل اختیار حاصل ہے، اس لیے پارلیمان کی کی گئی ترمیم کسی عدالت کے سامنے قابلِ سماعت نہیں۔
’آئین میں واضح ہے کہ ملک کی باگ ڈور منتخب نمائندوں نے سنبھالنی ہے۔ یہی موقف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی تحریر کیا تھا کہ 17 غیرمنتخب جج پارلیمان سے زیادہ بااختیار یا زیادہ اہل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انہیں ایسا ہونا چاہیے۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان آئینی طریقہ کار کے تحت چل رہا ہے۔ آئینی عدالت کا قیام بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے اور موجودہ ترمیم کے تحت تشکیل دی جانے والی عدالت میں چاروں اکائیوں کی برابر نمائندگی شامل ہو گی۔