Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خراب گورننس اور کرپشن‘: آئی ایم ایف کی پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں کیا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ اس وقت قومی سطح پر زیر بحث ہے۔
یہ رپورٹ بنیادی طور پر 20 نومبر کو جاری کی گئی تھی جسے آئی ایم ایف نے ورلڈ بینک کے تعاون اور حکومت پاکستان کی منظوری کے ساتھ تیار کیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پہلے بھی پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے ایسی رپورٹس شائع کرتا رہا ہے، لیکن اس بار یہ رپورٹ اتنی زیادہ زیرِ بحث کیوں ہے؟
معاشی ماہرین اس کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس دفعہ آئی ایم ایف کی رپورٹ دراصل پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے پبلک کی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے موجودہ مالیاتی معاہدے کی شرط کے مطابق پاکستان کو اس رپورٹ کو عوام کے لیے دستیاب کرنا ضروری تھا۔
آئیے جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کیا ہے اور اس میں کیا کہا گیا ہے۔
اس ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ کا نام ’پاکستان: گورننس اینڈ کرپشن ڈائگنوسٹک اسیسمنٹ‘ رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر ٹیکنیکل اسسٹنس یا ڈائگنوسٹک رپورٹ وہ رپورٹس ہوتی ہیں جو اُس وقت تیار کی جاتی ہیں جب آئی ایم ایف کسی ملک کے ساتھ مل کر اس کے مالیاتی معاملات میں معاونت فراہم کر رہا ہو۔
اسی وجہ سے آئی ایم ایف اس دوران گورننس، کرپشن، ٹیکس اصلاحات اور مالیاتی اصلاحات وغیرہ کے لیے بھی تجاویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل تھا پاکستان کی وفاقی حکومت اس رپورٹ کو پبلک کرے گی۔
اُردو نیوز کو دستیاب مذکورہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں کرپشن کے بارے میں اپنا مرکزی موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں کرپشن مسلسل اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، اور اسی وجہ سے مختلف ریاستی اداروں میں فیصلہ سازی کمزور اور وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔‘
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن اور گورننس کے مسائل کو بہتر کر لیا جائے تو جی ڈی پی میں پانچ فیصد سے چھ فیصد تک اضافی ترقی ممکن ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ٹیکس نظام کو ڈسٹورٹیو اور پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری ٹیکس چھوٹ طاقتور طبقوں کو فائدہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر میں آئی ٹی اور آڈٹ پروسیس کو کمزور گردانا ہے۔
آئی ایم ایف نے پبلک پروکیورمنٹ یعنی سرکاری خریداری کے عمل میں غیر شفافیت اور سیاسی مداخلت کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے ادارے طاقتور گروہوں کے زیر اثر ہیں اور خسارے میں جانے والے اداروں کی جوابدہی کا جوابدہ نظام نہیں ہے۔
حالیہ عرصے میں قائم کی گئی خصوصی سرمایہ کاری کونسل پر بھی آئی ایم ایف نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے اہم فیصلوں میں قانونی اور پارلیمانی نگرانی کی کمی پائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے نظام اور ریگولیٹری اداروں کو کمزور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نگرانی اور رپورٹنگ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔

’ایلیٹ کیپچر سب سے بڑا مسئلہ‘

آئی ایم ایف نے پاکستان میں ’ایلیٹ کیپچر‘ کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقتور اور بااثر گروہ شوگر، ریئل سٹیٹ، انرجی سیکٹر، زراعت جیسے شعبوں اور سرکاری اداروں میں کیے جانے والے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں ایک 15 نکات پر مشتمل اصلاحاتی پلان بھی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس نظام شفاف اور سادہ بنایا جائے، سرکاری خریداری مکمل طور پر اوپن اور مانیٹر کی جائے، ایف بی آر میں آئی ٹی اور آڈٹ نظام عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے اور دیگر تجاویز بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ سرکاری اداروں کو اپڈیٹ قوانین کے تحت ریگولیٹ کیا جائے، بجٹ سازی کا عمل عوام کے سامنے زیادہ شفاف بنایا جائے اور غیر ضروری ٹیکس اور رعایتیں ختم کی جائیں۔
آئی ایم ایف نے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ اگر پاکستان میں گورننس کو بہتر نہیں کیا گیا تو اقتصادی ترقی سٹرکچرل طور پر محدود رہے گی، یعنی معیشت اوپر نہیں اُٹھ سکے گی چاہے پالیسی کتنی بھی اچھی بنائی جائے۔

عدالتی عمل میں کمزوریوں کی نشاندہی

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں پاکستان کی عدلیہ کے حوالے سے بھی خصوصی صفحات شامل کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں عدالتی کارکردگی کو کمزور قرار دیا گیا ہے اور عدالتی عمل کی کمزوریوں (فیصلوں میں تاخیر) کی نشاندہی کی گئی ہے جو نظام کو کمزور بنا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نظام کی کارکردگی کا باقاعدہ جائزہ نہیں لیا جاتا، یعنی عدالتوں اور ججوں کی قابلیت اور کارکردگی کو مستقل طور پر مانیٹر کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔
آئی ایم ایف نے عدلیہ کی شفافیت اور دیانت داری پر بھی خدشات ظاہر کیے ہیں جیسے کہ یہ کہا گیا ہے کہ ججوں کو ملنے والی ادائیگیاں اور مالی مراعات شفاف نہیں ہیں۔
آئی ایم ایف نے عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی ہے کہ عدالتی ادارے اپنی کارکردگی بہتر کریں، مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کا دورانیہ کم کیا جائے اور عدلیہ میں تقرری اور ملازمت کی پالیسی کو بہتر اور معیاری بنایا جائے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالتوں اور ججوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے لیے ایک میکانزم قائم کیا جائے جو عدلیہ کی شفافیت اور جوابدہی کو مضبوط بنا سکے۔ رپورٹ میں ’الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن‘ کو فعال کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

’آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ کوئی نئی چیز نہیں‘

ماہرین اور معیشت دان سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ان تمام مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کو معاشی اور گورننس کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سابق وزیر مملکت اور سینیئر معیشت دان ہارون شریف نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں آئی ایم ایف کی رپورٹ بنیادی طور پر وہ ادارے ہدف بناتی ہے جو ملکی معیشت کی ترقی کے ذمہ دار ہیں۔‘
رپورٹ میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی ادارے صحیح کام نہیں کر پا رہے، شفافیت اور ایفیشنسی میں کمی ہے اور رولز کی پابندی بھی ناکافی ہے۔
ہارون شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آر، سٹیٹ بینک ، عدلیہ، سی پی ایس، ایس آئی ایف سی سمیت تمام اداروں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا کہ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو پاکستان کی تین سے پانچ سال میں اقتصادی ترقی شروع ہو سکتی ہے۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
’جب بھی عالمی مالیاتی ادارے کسی ملک کے ساتھ کام کرتے ہیں تو وہ ایسی رپورٹ جاری کرتے ہیں تاکہ بتایا جا سکے کہ آئی ایم ایف کی دی گئی رقم کہاں اور کیسے خرچ ہو رہی ہے اور مالیاتی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ آئی ایم ایف نے ورلڈ بینک کے اشتراک سے تیار کی جس میں پاکستان کی حکومت کی رضامندی شامل تھی اور حکومت نے اسے منظور کیا۔
’فرق اس دفعہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اسے عوام کے لیے پبلک کرنے کا کہا اور اسی لیے یہ پبلک ہوئی جس کی وجہ سے سب اس پر بات کر رہے ہیں۔‘
ہارون شریف کے مطابق حکومت کو دفاع کرنے کی بجائے سامنے آنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ وہ ان تجاویز پر اپنے اداروں کو بہتر بنا رہی ہے، اداروں میں ایرنگ اور فائرنگ میرٹ پر ہو رہی ہے، آزاد اداروں سے آڈٹ کرایا جا رہا ہے اور سیاسی اثر و رسوخ کو کم سے کم کیا جا رہا ہے۔

 

شیئر: