Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صوبہ پنجاب میں ضمنی انتخابات، حلقہ این اے-129 اہم کیوں ہے؟

وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فوجی اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 23 نومبر کو قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے سات حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ انتخابات مختلف وجوہات کی بنا پر خالی ہونے والی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ان انتخابات کی تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے جبکہ سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ پولنگ کا عمل شفاف اور پرامن رہے۔

 ضمنی انتخابات کی تیاریاں: اب تک دستیاب معلومات

پنجاب میں یہ ضمنی انتخابات 23 نومبر اتوار کو منعقد ہوں گے جو کہ سنہ 2024 کے عام انتخابات کے بعد اتنی بڑی تعداد میں پہلے ضمنی انتخابات ہو گے۔ الیکشن کمیشن نے اکتوبر 2025 میں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے انتخابات موخر کر دیے تھے اور اب تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ ای سی پی نے 20 اکتوبر کو نظر ثانی شدہ شیڈول جاری کیا۔
وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فوجی اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کو کوئیک ری ایکشن فورس کی حیثیت سے تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ تعیناتی 22 سے 24 نومبر تک ضمنی انتخابات والے حلقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہو گی۔
فورسز کی تعیناتی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-18 (ہری پور)، این اے-96 (فیصل آباد)، این اے-104 (فیصل آباد)، این اے-143 (ساہیوال)، این اے-185 (ڈیرہ غازی خان) اور این اے-129 (لاہور) میں ہو گی۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی-73 (سرگودھا)، پی پی-98 (فیصل آباد)، پی پی-115 (فیصل آباد)، پی پی-116 (فیصل آباد)، پی پی-203 (ساہیوال)، پی پی-269 (مظفرگڑھ) اور پی پی-87 (میانوالی) میں بھی فورسز تعینات کی جائیں گی۔
فوج کی تعیناتی فیصل آباد، ساہیوال، ڈیرہ غازی خان، لاہور، مظفرگڑھ اور میانوالی شہروں میں ہو گی جہاں سکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی نفری بھی طلب کی گئی ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی حتمی تعداد محکمہ داخلہ پنجاب اور الیکشن کمیشن مل کر طے کریں گے۔ اس کے علاوہ موبائل سروسز پر جزوی پابندی اور پولنگ سٹیشنز کے آس پاس چیک پوائنٹس قائم کیے جائیں گے تاکہ کوئی خلل نہ ہو۔
ای سی پی نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مہم کے دوران نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں جبکہ خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔ ان 12 حلقوں میں لاکھوں رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ پولنگ کا وقت صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ہو گا اور نتائج فوری طور پر جاری کیے جائیں گے۔ ای سی پی نے پوسٹل بیلٹ کے لیے بھی الگ ہدایات جاری کی ہیں۔

ای سی پی نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مہم کے دوران نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں جبکہ خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 
یہ انتخابات پنجاب کی سیاسی کشمکش کی عکاسی بھی کریں گے جہاں مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ابھی بھی جماعت کے طور پر اپنے انتخابی نشان سے محروم ہے۔ ان حلقوں میں سب سے دلچسپ مقابلہ لاہور کا سمجھا جا رہا ہے، جس سے اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ حکومت حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ ن شہر پر اپنا سیاسی تسلط بحال کر پائی ہے یا نہیں۔

حلقہ این اے-129 لاہور ہے کیا؟

حلقہ این اے-129 جو لاہور شہر کے مرکزی اور تاریخی علاقوں پر مشتمل ہے، پنجاب کی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس حلقے میں شہری ووٹرز کی اکثریت ہے جہاں متوسط طبقے، تاجر برادری اور سیاسی خاندانوں کی مضبوط گرفت ہے۔ اس حلقے کی نشست سابق ایم این اے میاں محمد اظہر کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی جو سنہ 2024 کے عام انتخابات میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) آزاد امیدوار کی حیثیت سے 103,739 ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ میاں اظہر جو 83 سال کی عمر میں جولائی 2025 میں لاہور کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے، ایک سینیئر سیاستدان، سابق گورنر پنجاب (1990-1993)، لاہور کے میئر (1987-1991) اور مسلم لیگ ق کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کا خاندان (آرائیں برادری) اس حلقے میں دہائیوں سے اثر و رسوخ رکھتا ہے اور ان کے بیٹے حماد اظہر بھی پی ٹی آئی کے رہنما ہیں۔

حلقہ این اے-129 سے ن لیگ کی جانب سے حافظ محمد نعمان امیدوار ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)

یہ حلقہ لاہور کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس میں درج ذیل اہم علاقے شامل ہیں: اسلام پورہ، سنت نگر اور آئی بی سی۔ یہ مرکزی رہائشی علاقے ہیں جہاں متوسط طبقے کی آبادی ہے اور اکثر یہاں سیاسی جلسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح انارکلی اور ہربنس پورہ تاریخی بازاروں اور تجارتی مراکز والے علاقے ہیں جہاں تاجر ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے۔ شاد باغ اور بیگم پورہ کے علاقے بھی اسی حلقے کا حصہ ہیں۔ یہ حلقہ تقریباً چار لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل ہے۔  

حلقے کی تاریخ اور پرانے نمبرز

این اے-129 کی موجودہ حد بندی سنہ 2024 میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہ علاقے حلقہ این اے 128 اور 127 پر مشتمل تھے۔ اس سے پہلے سنہ 2002 کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 94 تھا۔ جہاں سے مسلم لیگ ق کے میجر ریٹائرڈ حبیب اللہ وڑائچ جیتے تھے جب ق لیگ نے بطور جماعت پہلے الیکشن میں حصہ لیا۔ اس حلقے سے سنہ 2008 میں بینظیر بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کے طارق شبیر بھی جیت چکے ہیں، تب یہ حلقہ این اے 88 تھا۔ سنہ 2013 میں اس حلقے کا نمبر این اے 127 تھا اور اس سے شہباز شریف جیتے تھے، اسی طرح سنہ 2018 میں جب یہ حلقہ این اے 131 تھا تب بھی شہباز شریف جیتے تھے۔ البتہ فروری 2024 کے عام انتخابات میں جب اس کا نام این اے-129 پڑا تو یہاں سے میاں اظہر کی جیت ہوئی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق این اے-129 لاہور کا ایک اہم حلقہ ہے اور یہ الیکشن بھی اہم ہے کیونکہ یہ شہر کے مرکزی حلقوں پر مشتمل ہے، یہاں کی جیت کا براہ راست تعلق لاہور کی مجموعی سیاسی سمت سے ہوتا ہے۔

سنہ 2024 میں پہلی دفعہ ن لیگ کو اس حلقے سے ایک دہائی بعد شکست ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ حلقہ روایتی طور پر مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ رہا ہے جہاں 2013 اور 2018 میں شہباز شریف بڑے مارجن سے جیتے۔ جب ق لیگ بنی تھی تو ن لیگ پر الیکشن ’تنگ‘ کر دیا گیا تھا لیکن ووٹر موجود رہا۔ سنہ 2024 میں پہلی دفعہ ن لیگ کو اس حلقے سے ایک دہائی بعد شکست ہوئی تھی۔ 
ان ضمنی انتخابات میں حلقہ این اے-129 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار چوہدری ارسلان ظہیر (حماد اظہر کے بھانجے) جو میاں اظہر کے انتقال کے بعد خاندانی وراثت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حماد اظہر نے خود الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ن لیگ کی جانب سے حافظ محمد نعمان امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے بھی مقامی دھڑوں نے حافظ نعمان کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔  

 

شیئر: