مشہور برطانوی یوٹیوبر کو 24 گھنٹوں کے اندر افغانستان کیوں چھوڑنا پڑا؟
کابل پہنچنے پر ابتدائی لمحات تو خوشگوار رہے لیکن پھر سب کچھ بدل گیا (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
معروف یوٹیوبر جو فیزر افغانستان کا ’اصل چہرہ‘ دیکھنے کی غرض سے کابل پہنچے لیکن ان کا یہ سفر اُن کی زندگی کے سب سے پریشان کُن تجربات میں سے ایک ثابت ہوا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق یوٹیوب پر 20 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز رکھنے والے جو فیزر اپنی فٹنس ویڈیوز، لائف سٹائل ایکسپیریمنٹس اور پُرجوش انداز میں و لاگز کی وجہ سے مشہور ہیں۔
ان کا پلان کچھ یہ تھا کہ کابل میں پانچ دن گزاریں گے، مقامی گائیڈ کے ہمراہ گھومیں گے، لوگوں سے ملیں گے، افغانستان کے کھابے کھائیں گے اور اپنے مداحوں کو خبروں اور سوشل میڈیا ہیش ٹیگز سے ہٹ کر اس ملک کا مختلف رُخ دِکھائیں گے۔
لیکن ان کا یہ دورہ محض 24 گھنٹے ہی جاری رہا۔
جو فیزر نے اپنی ویڈیو میں بتایا کہ ’یہ سفر میرے لیے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنے جیسا تھا۔ میں افغانستان جا رہا تھا جو اعداد ع شمار کے لحاظ سے دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہے۔ لیکن میں حقیقی صورتحال دیکھنا چاہتا تھا نہ کہ صرف وہ جو آپ آن لائن دیکھتے ہیں۔‘
لیکن کچھ بھی اُن کے پلان کے مطابق نہیں ہوا۔
جو فیزر کا سفر استنبول سے شروع ہوا جہاں وہ اپنے کیمرہ مین جیک کے ہمراہ کنیکٹنگ فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
جو فیزر جیک سے پوچھتے ہیں کہ ’کیا تمہیں گھبراہٹ ہو رہی ہے؟‘
جیک نے جواب دیا کہ ’ہاں تھوڑی سی۔ میں نہیں جانتا کہ ایئرپورٹ پہنچنے پر کیا ہوگا۔‘
جب جہاز کی کابل میں لینڈنگ ہوئی تو ان کی پریشانی بے جا نہیں تھی لیکن ابتدائی لمحات میں جو ہوا وہ ان کے لیے حیران کُن تھا۔
بارڈر کنٹرول آفیسر نے اُن سے صرف اتنا پوچھا کہ کیا انہیں افغانستان میں کام ہے؟
جس پر یوٹیوبر جو فیزر نے بتایا کہ ’بس ملک دیکھنے آیا ہوں۔‘ اس کے بعد پاسپورٹ پر مہر لگا دی گئی اور کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔
ایئرپورٹ سے باہر مقامی افراد نے اُن کا مسکراتے ہوئے استقبال کیا اور مدد کی پیشکش کی۔ طالبان کا ایک رکن بھی ان سے ملا اور محفوظ سفر کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
وہ جلد ہی اپنے مقامی گائیڈ سے ملے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت اچھا اور مہربان انسان تھا۔ کابل کے ایک بہترین ہوٹل میں چیک اِن کرنے کے بعد انہوں نے ہدایت کے مطابق مقامی لباس پہنا۔
انہوں نے بتایا کہ ’جیسے ہی میں نے ایئرپورٹ پر پہلے شخص سے بات کی، میری گھبراہٹ دور ہو گئی تھی۔‘
افغانستان پہنچتے کے بعد ابتدائی لمحات تو جو فیزر کے لیے خوشگوار رہے لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔
جیسے ہی وہ افغانستان میں گھومنے کے لیے باہر نکلے، مسجد کے قریب طالبان اہلکاروں نے انہیں روکا اور تلاشی لینا شروع کر دی۔
ایک اہلکار نے مائیکروفون کی نشاندہی کرتے ہوئے پوچھا: ’یہ کیا ہے؟ کیا آپ کے پاس صحافتی ویزا ہے؟‘ یوٹیوبر نے بتایا کہ ’نہیں۔‘
انہوں نے سفر سے پہلے کچھ ٹریول کمپنیز سے پوچھا تھا جنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ یوٹیوب وی لاگر کے لیے صرف ٹورسٹ ویزا کافی ہوتا ہے۔ لیکن قوانین بدل چکے تھے۔
اہلکاروں نے کیمروں کی لینز بلاک کر دیے، پاسپورٹس ضبط کر لیے اور ان کی تصویریں کھینچی گئیں۔
ان کے گائیڈ نے حالات سنبھالے، لیکن حالات بگڑ چکے تھے۔
جو فیزر کو معلوم ہوا کہ حال ہی میں دو دیگر یوٹیوبرز کو بغیر اجازت ویڈیو بنانے کی وجہ سے جیل بھیجا گیا ہے۔
گائیڈ نے وضاحت کی کہ ’حکومت کو لگتا ہے کہ کچھ سیاح جاسوس ہو سکتے ہیں۔‘
جو فیزر اور جیک نے پُرسکون جگہ پر جانے کی کوشش کی لیکن طالبان اہلکاروں نے انہیں پھر روک لیا۔ گائیڈ نے انہیں بتایا کہ ’یہ لوگ آپ کے خلاف تحقیقات شروع کر رہے ہیں۔‘
اس کے بعد جو فیزر اور جیک نے فیصلہ کیا کہ خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے اگلی پرواز بک کرائی اور چند گھنٹوں میں واپس جانے کی تیاری کی۔
اگرچہ جو فیزر نے کابل میں صرف تین گھنٹے گزارے، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لوگ مہربان اور مددگار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ افغانستان ضرور جائیں گے لیکن اگلی بار کیمرہ اور مائیکروفون کے بغیر جائیں گے۔
’میں مستقبل قریب میں دوبارہ افغانستان جانا چاہتا ہوں۔ میں ملک کو مزید دیکھنا چاہتا ہوں۔‘
