Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر پابندی، روس کی جی8 میں واپسی: صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں کیا ہے؟

برطانوی اخبار گارڈین نے ایکسیوز، اے ایف پی اور اے پی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین جنگ کے خاتمے کے تازہ منصوبے میں یوکرینئ علاقے روس کو دینے، ماسکو کی جی8 میں واپسی اور یوکرین پر نیٹو میں شمولیت کی پابندی جیسی تجاویز شامل ہیں۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ آئندہ چند روز میں صدر ٹرمپ کے ساتھ اس منصوبے پر بات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاہدے میں ’باوقار امن‘ اور ’ہماری آزادی، ہماری خودمختاری کا احترام‘ ہونا لازمی ہے۔
یوکرینی صدارتی دفتر کے محتاط ردِعمل کے برعکس، کئی یوکرینی حکام نے اس منصوبے کو ’غیرمعقول‘، ’سرنڈر‘ اور یوکرین کی بطور خودمختار ریاست موثر طور پر موت قرار دیا ہے۔
یہ منصوبہ بظاہر ماسکو کے زیادہ سے زیادہ مطالبات کی تکرار ہے اور یوکرین کی کئی سرخ لکیروں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اسے قبول کرنا صدر زیلنسکی کے لیے ایک بڑے یوٹرن کے مترادف ہو گا، کیونکہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اپنے ملک کے علاقے دینا ناقابلِ قبول ہے۔
اس تجویز کو یورپی اتحادی بھی ممکنہ طور پر مسترد کریں گے، جو عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امن مذاکرات میں انہیں شامل کیا جائے کیونکہ اس کے براعظم کے سکیورٹی ڈھانچے پر وسیع اثرات پڑیں گے، خصوصاً نیٹو کے مشرقی حصے پر۔
رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ روسی اور امریکی حکام نے تیار کیا ہے، جن میں روس کے خودمختار ویلتھ فنڈ کے سربراہ کریل دیمترییف بھی شامل ہیں، جو پہلے بھی یوکرین پر مذاکرات میں حصہ لے چکے ہیں اور امریکہ کے نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف سے رابطے میں سمجھے جاتے ہیں۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’صدر اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ روس اور یوکرین دونوں کے لیے اچھا منصوبہ ہے۔‘
لیوٹ کے مطابق وٹکوف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو قریباً ایک ماہ سے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ ’خاموشی سے‘ اس منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اس اعتراض کو مسترد کیا کہ یہ منصوبہ ماسکو کے زیادہ سے زیادہ مطالبات کی بازگشت ہے۔

منصوبے کے 28 نکات میں کیا ہے؟

علاقہ

مسودے کے مطابق یوکرین ڈونباس کا خطہ روس کو دے دے گا، جو ماسکو کے دیرینہ مطالبات سے مطابقت رکھتا ہے۔
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ’کریمیا، لوہانسک اور دونیتسک کو عملی طور پر روس کا حصہ تسلیم کیا جائے گا، جسے امریکہ سمیت سب تسلیم کریں گے۔‘ یوکرین ابھی بھی لوہانسک اور دونیتسک کے کچھ حصوں پر کنٹرول رکھتا ہے جبکہ کریمیا کو سنہ 2014 میں روس نے ضم کر لیا تھا۔
دونیتسک کے وہ علاقے جہاں سے یوکرین پیچھے ہٹے گا، غیر فوجی علاقہ قرار پائیں گے جس میں روسی افواج داخل نہیں ہوں گی۔
جنوبی خطے خیرسون اور زاپوریزیا، جنہیں روس نے غلط طور پر ضم کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ’فائر بندی کی لائن‘ پر منجمد کر دیے جائیں گے۔ ڈونباس، خیرسون اور زاپوریزیا کے حوالے سے یہ تجاویز بھی ماسکو کے پرانے مطالبات کے مطابق ہیں۔
روسی کنٹرول میں موجود زاپوریزیا نیوکلیئر پلانٹ آئی اے ای اے کی نگرانی میں دیا جائے گا اور اس کی پیداوار روس اور یوکرین میں تقسیم ہو گی۔

سکیورٹی

امریکی تعاون سے تیارکردہ اس منصوبے کے مطابق یوکرین کی فوج کو چھ لاکھ اہلکاروں تک محدود کیا جائے گا، جو موجودہ تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
نیٹو پر یوکرین میں فوج تعینات نہ کرنے کی پابندی ہو گی، اور یوکرین نیٹو کی رکنیت بھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ یہ تجاویز روس کے پہلے سے ظاہرکردہ مطالبات سے مطابقت رکھتی ہیں اور یوکرین کے موقف کے خلاف جاتی ہیں۔
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کو ’قابلِ اعتماد سکیورٹی ضمانتیں‘ دی جائیں گی جس اس کی تفصیل نہیں دی گئی، تاہم یورپی لڑاکا طیارے پڑوسی ملک پولینڈ میں تعینات کیے جائیں گے۔

سفارت کاری

مجوزہ معاہدے کے تحت روس کو قریباً چار برس کی سخت پابندیوں کے بعد عالمی معیشت میں دوبارہ شامل کیا جائے گا اور جی8 میں واپسی کی اجازت دی جائے گی۔
دستاویز کے مطابق ’امید ہے کہ روس پڑوسی ممالک پر حملہ نہیں کرے گا اور نیٹو مزید وسعت نہیں لے گا۔‘
اگر روس دوبارہ یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو تمام پابندیاں فوراً بحال ہو جائیں گی اور اس کے ساتھ ’مؤثر مشترکہ فوجی ردِعمل‘ بھی ہو گا۔
مزید یہ کہ روس کے منجمد اثاثوں میں سے 100 ارب ڈالر یوکرین کی تعمیرِنو کے لیے مختص کیے جائیں گے، جبکہ دیگر اثاثے امریکہ–روس سرمایہ کاری فنڈ میں منتقل کیے جائیں گے تاکہ ’تنازعے میں واپس نہ جانے کے لیے مشترکہ مفادات پیدا کیے جا سکیں۔‘
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ یوکرین 100 دن کے اندر انتخابات کرائے گا، اور دونوں ممالک تعلیمی پروگرام شروع کریں گے تاکہ ’مختلف ثقافتوں کے احترام اور رواداری کو فروغ دیا جائے اور نسل پرستی اور تعصب کا خاتمہ ہو۔‘

شیئر: