پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں ایک طرف نئی نجی ایئر لائنز کی آمد نے مسابقت، علاقائی کنیکٹیویٹی اور بہتر سفری سہولتوں کی نئی امیدیں پیدا کر دی ہیں، تو دوسری جانب ملک کی نمایاں نجی فضائی کمپنی سیرین ایئر بدترین مالی اور آپریشنل بحران کے باعث لائسنس کی منسوخی جیسے سنگین مرحلے سے گزر رہی ہے۔
ساوتھ ایئر، ایئر کراچی اور سرکاری سطح پر مجوزہ ایئر پنجاب جیسے منصوبے بظاہر ملکی فضائی ڈھانچے کو نئی سمت دینے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر اسی دوران ایک بڑی ایئر لائن کا غیر فعال ہونا اس سوال کو دوبارہ اہم بنا دیتا ہے کہ کیا پاکستان کا ہوا بازی کا نظام نئی کمپنیوں کے استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے؟
پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں حالیہ مہینوں کے دوران کئی نئی نجی ایئر لائنز کے منصوبے منظرِ عام پر آئے ہیں، جنہیں ملکی فضائی ڈھانچے میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
یہ کمپنیاں اگرچہ فی الحال اپنے آپریشنز کا آغاز نہیں کر سکیں، تاہم ان کے منصوبوں نے اس شعبے میں مسابقت اور ترقی کی نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔
ساوتھ ایئر: ملک کے اہم شہروں میں فضائی رابطے کا منصوبہ
حالیہ عرصے میں جس نئی ایئرلائن نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے وہ سائوتھ ایئر ہے۔ کمپنی نے اگرچہ اب تک باقاعدہ پروازوں کا آغاز نہیں کیا، لیکن اس کے ابتدائی اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان کے اندر علاقائی کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے گا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے علاوہ ایسے اضلاع اور خطوں بالخصوص جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا جو ماضی میں فضائی سہولتوں سے محروم رہے، ان کے لیے کم لاگت، محفوظ اور باقاعدہ پروازیں شروع کرنا اس کا بنیادی ہدف ہوگا۔
ہوابازی کے ماہرین اس منصوبے کو ’علاقائی استحکام‘ کے تناظر میں مثبت قرار دیتے ہیں، کیونکہ ملک کے کئی علاقے عملی طور پر قومی اقتصادی دھارے سے دور ہیں۔

ساوتھ ایئر اگر اپنے اعلان کے مطابق چھوٹے شہروں کے ہوائی اڈوں کو فعال بنانے میں کامیاب رہتی ہے تو نہ صرف مسافروں کے سفر پر کم وقت لگے گا بلکہ مقامی کاروبار، صحت اور تعلیم تک رسائی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔
کمپنی نے فی الوقت بیڑے کے حجم، طیاروں کی اقسام اور ابتدائی روٹس کے بارے میں تفصیل ظاہر نہیں کی، لیکن اس کے باوجود تجزیہ کار اسے ہوا بازی کے شعبے میں متوقع بڑی اور اہم شمولیت قرار دے رہے ہیں۔
ایئر کراچی، کراچی کو فضائی مرکز بنانے کا عزم
ایئر کراچی کا منصوبہ بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی معلومات کے مطابق ایئر کراچی کا ارادہ ہے کہ کراچی کو پاکستان میں ایک اہم فضائی مرکز کے طور پر منظم کیا جائے۔
یہ قدم ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قومی ایئر لائن کے مالی بحران، روٹس میں کمی اور بیڑے کی محدود دستیابی نے مسافروں کے لیے قابلِ اعتماد متبادل کی ضرورت بڑھا دی ہے۔

ایئر کراچی نے اگرچہ ابھی اپنے آپریشنز کا آغاز نہیں کیا، مگر سرمایہ کاری کے عمل، رجسٹریشن، اور بیڑے کی تشکیل پر کام جاری ہے۔
یہ امید کی جا رہی ہے کہ ایئر کراچی سے اندرونِ ملک مختلف شہروں کے لیے سفر کے نئے راستے کھلیں گے، جبکہ مستقبل میں بین الاقوامی روٹس بھی اس کے دائرہ کار میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ کاروباری برادری خاص طور پر اس پیش رفت کو مثبت قرار دے رہی ہے، کیونکہ تیز اور باقاعدہ فضائی رابطے شہر کی اقتصادی سرگرمیوں کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔
ایئر پنجاب صوبائی سطح پر فضائی رابطے بہتر بنانے کا سرکاری منصوبہ
پنجاب حکومت نے بھی صوبائی سطح پر ایئر پنجاب کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ اگرچہ کمپنی عملی طور پر ابھی آپریشنل نہیں ہوئی، تاہم اس کے قیام کا مقصد صوبے کے اندر بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں کو فضائی نیٹ ورک کے دائرہ کار میں لانا ہے۔
پنجاب میں صنعت، زراعت اور کاروباری سرگرمیوں کے بڑے مراکز موجود ہونے کے باوجود کئی اضلاع براہِ راست فضائی رابطے سے محروم ہیں، اور یہی خلا ایئر پنجاب کے ذریعے پورا کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
ایوی ایشن امور کے ماہر سینiئر صحافی راجہ کامران کا خیال ہے کہ ’سرکاری سطح پر کسی فضائی کمپنی کا قیام انتظامی اور مالی مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے، لیکن اگر اسے پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلایا گیا، جدید بیڑا فراہم کیا گیا اور کسی سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھا گیا، تو یہ اقدام صوبے میں سفر اور تجارت دونوں کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب نئی ایئر لائنز کے مثبت اعلانات کے برعکس، پاکستان کی معروف نجی ایئر لائن سیرین ایئر اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے ایئر لائن کمپنی کے لائسنس کی منسوخی کے بعد کمپنی کے تمام طیارے ’ناقابلِ پرواز‘ قرار پا چکے ہیں، جس کے باعث اس کا شیڈول آپریشن عملی طور پر معطل ہے۔ واضح رہے کہ سیرین ایئر کے مسائل گزشتہ کئی ماہ سے منظرعام پر آ رہے تھے۔
سی اے اے نے کمپنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ لائسنس کی بحالی کے لیے فوری طور پر طیاروں کی مرمت، بیڑے کی بحالی اور مالی استحکام کے شواہد فراہم کرے، وگرنہ کمپنی کو آپریشنز جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پیش رفت نے ہوابازی کے شعبے میں یہ بحث دوبارہ چھیڑ دی ہے کہ نئی ایئر لائنز شروع کرنے کے اعلانات کے ساتھ ساتھ موجودہ کمپنیوں کے استحکام کو یقینی بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔












