پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پیش نظر پنجاب حکومت نے ایک قدم اٹھایا ہے جو ممکنہ طور پر ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل سکتا ہے۔
ایک سمری کے ذریعے نئے قائم شدہ سکلز ڈویلپمنٹ اینڈ انٹرپرینیورشپ ڈیپارٹمنٹ کو غیرملکی سفارت خانوں، مشنز اور بین الاقوامی اداروں سے براہ راست روابط قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویز کے مطابق اس کا بنیادی مقصد پاکستانی سکلڈ افرادی قوت کو عالمی روزگار کی مارکیٹ میں تیزی سے مواقع فراہم کرنا ہے خاص طور پر ان بے روزگار نوجوانوں کو جو تکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے آراستہ ہیں مگر مقامی سطح پر نوکریاں نہیں لے پا رہے۔
مزید پڑھیں
-
بے روزگاری میں ذہن کو ’شیطان کا گھر‘ بننے سے کیسے بچایا جائے؟Node ID: 884799
-
پاکستانی نوجوان کرپٹو کے ’انقلاب‘ سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟Node ID: 890339
یہ پالیسی نہ صرف صوبائی سطح پر ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ پاکستان کی مجموعی معاشی حکمت عملی کا بھی حصہ بن سکتی ہے جہاں ریمٹنس اور انسانی سرمائے کی برآمد کو معیشت کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔
اس پالیسی کا سیاق و سباق حال ہی میں ہونے والے بین الاقوامی معاہدوں سے جڑا ہے، بالخصوص بیلاروس کی جانب سے کی گئی ایک غیرمعمولی پیشکش سے۔
اپریل 2025 میں وزیراعظم شہباز شریف کے بیلاروس کے دورے کے دوران بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ سکلڈ ورکرز کو اپنے ملک میں نوکریاں دینے کی پیشکش کی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب بیلاروس خود افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے اور اسے اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے اسے پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک ’تحفہ‘ قرار دیا جو نہ صرف معزز روزگار فراہم کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بھی مضبوط بنائے گا۔
اس دورے کے دوران 15 مفاہمت ناموں پر دستخط کیے گئے جن میں دفاع، تجارت، ماحولیاتی تحفظ اور کاروباری تعاون شامل تھے۔ خاص طور پر زراعت، صنعت اور کان کنی کے شعبوں میں تعاون پر زور دیا گیا جہاں پاکستانی ورکرز اپنی مہارتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔

بیلاروس کی پیشکش کے بعد پنجاب حکومت نے فوری طور پر ردعمل دیا۔
سکلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک سمری تیار کی جس کی صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔
اس پالیسی کے تحت پنجاب حکومت کو اسلام آباد میں موجود غیرملکی سفارت خانوں اور مشنز سے براہ راست رابطے کی اجازت ہے اور اس کے علاوہ پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی۔
یہ روابط حکومت سے کاروبار (جی ٹو بی) اور کاروبار سے کاروبار (بی ٹو بی) کی شکل میں ہوں گے جو تیزی سے بدلتے عالمی روزگار کے مواقع پر فوری ردعمل دینے میں مدد دیں گے۔
سمری کے مطابق پنجاب حکومت کا بنیادی مقصد پیشہ ورانہ تربیتی کورسز کو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ پاکستانی نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
مثال کے طور پر بیلاروس کی ضرورت کے مطابق تعمیرات، زراعت، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے ورکرز کو ترجیح دی جائے گی۔
یہ پالیسی پنجاب کی ’سکلز فار آل‘ حکمت عملی کا توسیعی حصہ ہے جو پہلے ہی ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس پالیسی کے فوائد بظاہر واضح ہیں۔ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں دو دہائیوں سے کام کرنے والے کنسلٹنٹ عبدالرؤف کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے، یہ بے روزگاری کو کم کرنے میں مدد دے گی۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں نوجوان لیبر مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں، مگر نوکریوں کی تعداد ناکافی ہے۔ بیرون ملک روزگار سے نہ صرف یہ نوجوان اچھی تنخواہ حاصل کریں گے بلکہ ریمٹنس کی صورت میں ملک کی معیشت کو بھی تقویت ملے گی۔‘

’سنہ 2024 میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد ریمٹنس موصول ہوئیں جو جی ڈی پی کا 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ بیلاروس جیسی پیشکشوں سے یہ رقم مزید بڑھ سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’دوسرا یہ پالیسی پاکستانی افرادی قوت کی عالمی سطح پر شناخت بڑھائے گی۔ بیلاروس کے علاوہ، جی سی سی ممالک (جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات) اور یورپی یونین کے کئی ممالک بھی سکلڈ ورکرز کی طلب رکھتے ہیں۔‘
پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام صوبے کی معیشت کو مستحکم کرے گا اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے پروگراموں کو مزید موثر بنائے گا۔ مثال کے طور پر ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوی ٹا) نے حال ہی میں خواتین کو سکلز ٹریننگ دینے پر زور دیا ہے جو اس پالیسی کا حصہ بن سکتی ہے۔
پالیسی کے لیے چیلنجنز کیا ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق اس پالیسی کے چیلنجز بھی کم نہیں۔ ڈویلپمنٹ شعبے سے ہی وابستہ ماریہ علی کہتی ہیں کہ ’سب سے بڑا خدشہ غیر قانونی ہجرت اور انسانی سمگلنگ کا ہے۔ بیلاروس کی پیشکش پر بھی کچھ حلقوں نے تنقید کی ہے کہ یہ یورپی یونین کی سرحدوں پر مہاجرین کے بحران کو بڑھا سکتی ہے کیونکہ بیلاروس کو ماضی میں مہاجرین کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔‘
’پاکستان میں کئی کیسز سامنے آئے ہیں جہاں ورکرز کو جعلی ویزوں پر دھوکہ دیا گیا۔ اس لیے اس پالیسی کی عمل درآمد کے لیے وفاقی سطح پر وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کی منظوری ضروری ہے تاکہ شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔ مزید برآں برین ڈرین کا مسئلہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ اگر بہترین سکلڈ ورکرز بیرون ملک چلے جائیں تو مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کے بدلے میں مقامی روزگار کے مواقع بڑھانے چاہییں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈ نے جی سی سی ممالک میں سکلز کی طلب کا مطالعہ کیا ہے جو اس پالیسی کو مزید مؤثر بنا سکتا ہے۔
ماہرین کی آراء اس پالیسی کو ملاجلا ردعمل دے رہی ہیں۔ ایک طرف اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی ’سکلز فار آل‘ حکمت عملی کو تقویت دے گی جو کورونا بحران کے بعد سے جاری ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی سکلز ڈیٹا بیس قائم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں تاکہ صنعتوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکن خبردار کر رہے ہیں کہ ورکرز کے حقوق کی حفاظت ضروری ہے۔ بیلاروس میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو مناسب تنخواہ، رہائش، اور قانونی تحفظ ملنا چاہیے۔
جولائی 2025 میں ایک اعلان سامنے آیا کہ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ورکرز کو بیلاروس کے لیے ورک ویزے جاری کیے جائیں گے جو اس پالیسی کا پہلا عملی قدم ہے۔