پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی نے سمندری حیات کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ڈولفن، سبز کچھوے اور دیگر نایاب آبی مخلوقات کے ساحل پر مردہ ملنے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
آبی حیات اور ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ، ممنوعہ جالوں کا استعمال، غیرقانونی ٹرالنگ اور ایران سے سمندری راستوں کے ذریعے تیل کی سمگلنگ جیسے عوامل اس بگڑتی صورتحال کی اہم وجوہات ہیں۔
پاکستان بحیرہ عرب کے شمالی حصے میں واقع ہے اور اس کی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کا بڑا حصہ بلوچستان پر مشتمل ہے جہاں گوادر، جیونی، اورماڑہ اور پسنی جیسے علاقے کبھی محفوظ قدرتی نرسریوں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان ساحلوں پر ڈولفن، وہیل، سبز کچھوے، جھینگے اور دیگر نایاب جاندار بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم اب بڑھتی ہوئی آلودگی، غیرقانونی ٹرالنگ اور ممنوعہ پلاسٹک جالوں کے استعمال اور ایرانی تیل کی ترسیل کے نتیجے میں تیل کے رساؤ اور سرگرمیوں نے اس خطے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
جیونی میں کروکر مچھلی ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد میں نیلامNode ID: 672366
-
بلوچستان کے ساحلوں پر ڈولفنز کے جُھنڈ، ’آبادی پھل پُھول رہی ہے‘Node ID: 897571
گذشتہ دنوں گوادر اور اورماڑہ کے درمیان ساحلی پٹی سے ایک نایاب انڈو پیسیفک فن لیس پورپوائز مردہ حالت میں ملی جس کی نسل پہلے ہی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ نومبر 2023 میں پسنی کے قریب 43 فٹ لمبی بلیو وہیل بھی مردہ حالت میں ملی تھی جبکہ سبز کچھوؤں کی ہلاکتیں معمول بنتی جا رہی ہیں۔
سمگل شدہ تیل سے سمندری حیات اور مینگرووز شدید متاثر
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم بلوچ کے مطابق بلوچستان کے ساحل نایاب آبی حیات کے لیے تیزی سے غیرمحفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق ڈولفن، پورپوائز اور کچھوؤں کی اموات میں 15 سے 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف گوادر، اورماڑہ، پسنی اور جیونی کے ساحلوں پر ہر برس 40 سے 50 نایاب کچھوے اور 15 سے 20 ڈولفن مردہ ملتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے ساحل پر کوڑا کرکٹ، ممنوعہ جالوں کے ساتھ ساتھ آلودگی کی ایک بڑی وجہ ایران سے تیل کی سمگلنگ بھی ہے۔
خیال رہے کہ گوادر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور جیونی کے ساحلی علاقے کنٹانی ہور میں روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی ڈیزل اور پٹرول چھوٹی کشتیوں اور بوٹس کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ تیز لہروں، حادثات یا سمندری گشت کے دوران پکڑے جانے کے خوف سے یہ ایندھن اکثر سمندر میں گر جاتا ہے۔ ساحل پر موجود زیرِزمین ٹینکوں میں تیل منتقل کرنے کے دوران بھی قابلِ ذکر مقدار زمین اور پانی میں بہہ جاتی ہے جس سے سمندری حیات اور مینگرووز شدید متاثر ہوتے ہیں۔
عبدالرحیم بلوچ کے مطابق تیل کے رساؤ سے تیمر (مینگرووز) کے درختوں کی شاخیں سیاہ پڑ رہی ہیں اور ان کی بقا خطرے میں ہے۔
ان کے مطابق مینگروز کے درخت سمندری حیات کے لیے مسکن کے علاوہ تیز سمندری لہروں اور سونامی سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اپریل 2024 کی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 تک اس سمندری راستے سے یومیہ 26 لاکھ لیٹر تک ایرانی تیل پاکستان منتقل ہوتا تھا جو حکومتی کارروائیوں کے بعد کم ہو گیا تاہم اب بھی روزانہ لاکھوں لیٹر تیل اس راستے سے سمگل ہو کر آ رہا ہے۔

امریکی محکمہ توانائی کے مطابق ایران یومیہ 40 لاکھ بیرل کے ساتھ تیل کی پیداوار کرنے والے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان کی یومیہ پیداوار صرف ایک لاکھ بیرل ہے۔ اس فرق کی وجہ سے ایران میں تیل کافی سستا ہے، اس لیے مقامی لوگ ایران سے تیل سمگل کرکے پاکستان میں فروخت کرتے ہیں۔
ایرانی تیل کی سمگلنگ اور سبز کچھوؤں کے مسکن
حکومتی پابندیوں کے باوجود بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ہزاروں افراد کا روزگار اب بھی ایرانی تیل کی سمگلنگ سے جڑا ہوا ہے۔ جیوانی کے کنٹانی ہور ساحل سے وابستہ ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پہلے روزانہ 1200 سے 1300 سپیڈ بوٹس آتی تھیں، جو اب کم ہوکر تقریباً 600 رہ گئی ہیں مگر ہر کشتی 1500 سے 2000 لیٹر تک تیل لاتی ہے، یوں اب بھی روزانہ 10 سے 12 لاکھ لیٹر تیل سمندر کے راستے پاکستان پہنچ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جیوانی کا ساحلی راستہ سب سے مختصر ہے اور سپیڈ بوٹس آدھے گھنٹے میں ایران سے پہنچ جاتی ہیں جہاں ساحل پر زیرِزمین نصب سیکڑوں ٹینکیوں میں تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پھر موٹر سائیکل سواروں کے ذریعے قریبی علاقوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس عمل کے دوران تیل کا کافی رساؤ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات جب ایرانی فورسز سمندر میں کشتیوں کا پیچھا کرتی ہیں تو سمگلر سپیڈ بوٹس کی رفتار بڑھانے کے لیے ڈیزل یا پٹرول سے بھرے جیری کین کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔‘
محمد معظم خان، سدھیر احمد اور بلوچستان فشر مین ورکر یونین کے غلام نبی کی جولائی 2021 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایرانی تیل کی سمگلنگ جیسی سرگرمیوں نے سمندری حیات خاص کر سبز کچھوؤں کے مسکن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

سمندری حیات کے ماہر اور جنگلی حیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائیڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے تکنیکی ایڈوائزر محمد معظم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہلے اس خطے میں سبز کچھوؤں کے لیے ایک سازگار مسکن تھا اور اسے صرف ایک ہی خطرہ درپیش تھا، جو آوارہ کتوں، گیدڑ اور لومڑیوں سے تھا جو انڈے نکال لیتے تھے، تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ کے لیے اس راستے کے استعمال سے بھی خطرات درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کشتیوں سے ٹرکوں میں ایندھن منتقل کرنے کے دوران ڈھیلے، خراب یا ناقص ڈھکنوں کے باعث کینز سے ایندھن بہتے ہوئے دیکھا گیا۔ سمگلنگ کے دوران ساحل کی ریت پر کئی جگہ ایندھن کے دھبے بھی نظر آئے۔ ساحل کا بڑا حصہ تیل کی بدبو سے آلودہ تھا۔‘
تحقیق کے مطابق ساحل پر بھاری مقدار میں ایندھن کشتیوں سے ٹرکوں تک منتقل کرنے کے لیے بار بار انسانی آمدورفت کی وجہ سے ریت سخت ہو گئی ہے جبکہ کچھوؤں کے بعض گھونسلے دب کر بیٹھ گئے یا گر گئے جس سے انڈے اور بچے مر گئے۔ سخت ریت انڈے دینے کی کامیابی کم کرتی ہے، گھونسلے کے خانے کی شکل اور جسامت کو متاثر کرتی ہے اور گھونسلے کو چھپانے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
محمد معظم خان کے مطابق ایندھن کی سمگلنگ سے متاثرہ علاقے میں گھونسلے سے نکلنے والے سبز کھچوؤں میں جنیاتی تبدیلیاں پائی گئیں جس کی وجہ سے ان کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔
’جیونی میں کراچی سے زیادہ کچرا‘
جیوانی کبھی اپنے پُرسکون اور خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے مشہور تھا، ان میں سے چند ساحل حیاتیاتی تنوع کے اہم مقامات سمجھے جاتے ہیں۔ جیوانی کا سب سے اہم ساحل شہر کے شمال مغرب میں ریت کے ٹیلوں سے نکلتی ہوئی ایک چٹانی پٹی پر واقع ہے۔

محمد معظم خان کے مطابق اس پتھریلے ساحل پر ایسی خاص سمندری مخلوقات پائی جاتی ہیں جو کہیں اور نہیں ملتیں۔ ان میں (فیتر سٹار، ستارے کی شکل والا نرم جانور)، موتی والے سیپ، سمندری مونگے (پودے جیسے نظر آنےوالے نرم ساخت کے جانور) شامل ہیں۔
محمد معظم خان کے مطابق گوادر میں میونسپل کمیٹی کی جانب سے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کی کوششوں کی وجہ سے صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ جیونی جیسے دور افتادہ، کم آبادی اور غیرصنعتی علاقوں میں کچرے کا تناسب کراچی سے بھی زیادہ ہے۔ جیونی کے کوڑا کرکٹ میں زیادہ تر پلاسٹک شامل ہے جو سمندری حیات کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ممنوعہ جالوں کے استعمال اور استعمال شدہ جالوں کو ٹھکانے لگائے بغیر سمندر یا ساحل کنارے پھینکنے سے بھی آلودگی پھیل رہی ہے اور اس میں پھنس کر آبی جانوروں کی موت ہو رہی ہے۔
عبدالرحیم بلوچ کے مطابق زیادہ تر ممنوعہ جالوں کا استعمال سندھ سے آنے والے ٹرالر (بڑی کشتی) میں آنے والے غیرقانونی ماہی گیر کرتے ہیں جنہیں ساحلی علاقوں میں شکار کی اجازت نہیں لیکن وہ اس کے باوجود غیرقانونی طور شکار اور ممنوعہ جالوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان جالوں میں پھنس کر نایاب سمندری جانوروں کی موت ہوتی ہے۔
سی پیک کے مرکز سمجھے جانےوالے گوادر میں کوڑے کرکٹ کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب حکومتی منصوبہ بندی موجود نہیں۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالرحیم بلوچ تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کچرا ٹھکانے لگانے کا کوئی منظم نظام نہیں ہے۔
ان کے مطابق گوادر میں 400 سے 500 کلو کوڑا کھلے میدان میں پھینکا جاتا ہے اور کوئی ری سائیکلنگ یا ٹریٹمنٹ نظام موجود نہیں۔ یہاں فیکٹریوں کا فضلہ بہت کم ہے، آلودگی کا سب سے بڑا سبب کوڑا کرکٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لینڈ فل سائٹس موجود نہیں، بعض سرکاری ٹیمیں بھی کچرا ساحل کے قریب پھینکتی ہیں۔ گوادر میں قدرے بہتری آئی ہے جہاں ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور میونسپل کمیٹی صفائی کر رہی ہیں۔ دو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے پانی دوبارہ پودوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے مگر لینڈ فل سائٹس کی کمی کی وجہ سے کچرا بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے تعاون سے گوادر میں ’سمارٹ انوائرمنٹ سینیٹیشن سسٹم‘ پر کام جاری ہے جس میں صفائی، لینڈ فل سائٹس اور ری سائیکلنگ پلانٹس شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ منصوبہ مکمل ہونے سے ساحلی علاقوں میں آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی سے بچنے کے لیے ساحلی آبادی، ماہی گیر برادری اور مقامی انتظامیہ کو کچرا ٹھکانے لگانے کے مؤثر نظام، غیرقانونی ٹرالنگ کی روک تھام اور تیل کے رساؤ کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ بروقت اقدامات نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان کے ساحلی علاقے بھی آنے والے برسوں میں اپنی حیاتیاتی وراثت کھو سکتے ہیں۔












