ہانگ کانگ کے ایک بلند رہائشی کمپلیکس میں لگنے والی ہولناک آگ، جس میں 128 افراد ہلاک ہوئے، جمعے کے روز بجھا دی گئی۔ ابتدائی تحقیقات میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ گرین نیٹ شیڈ (تعمیرات کے دوران استعمال ہونے والی جالی) پر لگنے والی آگ ہی سانحے کی بنیادی وجہ بنی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس آتشزدگی کے واقعے، جسے ہانگ کانگ کا بدترین سانحہ اور سنہ 1980 کے بعد دنیا کی مہلک ترین عمارتوں میں لگنے والی آگ قرار دیا جا رہا ہے، سے گنجان آباد شہر کو صدمہ پہنچا ہے۔
مزید پڑھیں
ہلاکتوں میں اضافہ
بدھ کو تائی پو کے شمالی ضلع میں مرمت کے مراحل سے گزرنے والے وانگ فک کورٹ کے اپارٹمنٹ بلاکس پر موجود بانس کی سکیفولڈنگ کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ نے رہائشی کمپلیکس کے آٹھ میں سے سات ٹاورز کو لپیٹ میں لے لیا، جن کی ہر عمارت 31 منزلوں پر مشتمل ہے اور مجموعی طور پر 1984 فلیٹس پر محیط ہے۔
آگ بجھانے کی کارروائی کے دوران ایک فائر فائٹر بھی ہلاک ہوا۔ فائر سروسز کے مطابق 40 گھنٹے سے زائد وقت تک بھڑکنے کے بعد آگ کو جمعے کی صبح ’زیادہ تر بجھا دیا گیا۔‘
سکیورٹی سیکریٹری کرس ٹینگ نے تصدیق کی کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 128 ہو گئی ہے، جبکہ تقریباً 200 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
یہ واقعہ سنہ 1948، جب ایک دھماکے اور آگ نے کم از کم 135 جانیں لی تھیں، کے بعد ہانگ کانگ کی سب سے مہلک آتشزدگی ہے۔
بچ جانے والے افراد
ریسکیو اہلکاروں نے عمارتوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش مکمل کر لی ہے۔ حکومت نے متاثرین کی امداد کے لیے 38.5 ملین امریکی ڈالر کا فنڈ قائم کر دیا ہے۔
رضاکاروں نے کپڑوں، خوراک اور گھریلو اشیا کی تقسیم کے لیےاسٹیشن قائم کیے ہیں، جبکہ طبی و نفسیاتی امداد کے لیے بھی مختلف مراکز فعال کر دیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق کم از کم نو پناہ گاہیں کھولی جا چکی ہیں اور بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کے لیے عارضی رہائش اور ہنگامی فنڈز کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
درجنوں زخمی مختلف ہسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں، جن میں 11 کی حالت تشویش ناک ہے۔

آگ تیزی سے کیوں پھیلی؟
تحقیقات جاری ہیں کہ آگ کس طرح بھڑکی۔ حکام بانس کی سکیفولڈنگ اور اس کے گرد لپٹی جالی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اینٹی کرپشن کمیشن نے تعمیراتی منصوبے کی جانچ شروع کرتے ہوئے جمعے کو آٹھ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
اس سے قبل پولیس نے تین افراد کو مشتبہ طور پر فوم پیکجنگ مواد سائٹ پر چھوڑنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سکیورٹی چیف ٹینگ کے مطابق آگ غالباً ’عمارت کی نچلی منزلوں کے باہر لگی حفاظتی جالی سے بھڑکی، جہاں فوم بورڈز نے شعلوں کو تیزی سے اوپر کی جانب بھڑکایا‘، جس کے بعد چھ دیگر عمارتیں بھی لپیٹ میں آ گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’آگ کی شدت سے ٹوٹنے والی بانس کی لکڑیاں نیچے گریں اور شعلے پھیل گئے۔‘
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اور اے ایف پی کی جانب سے تصدیق شدہ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ شعلے چند ہی منٹوں میں شدت اختیار کر گئے۔

فائر الارم ناکارہ
ابتدائی ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ حفاظتی جالیاں تو فائر سیفٹی کے معیار کے مطابق تھیں، تاہم کھڑکیوں کے گرد نصب فوم بورڈز جلد آگ پکڑنے والے تھے۔
ناقدین نے مطالبہ کیا ہے کہ تعمیراتی مقامات پر لازمی طور پر آگ سے محفوظ مواد کا استعمال یقینی بنایا جائے۔
فائر سروسز کے سربراہ اینڈی یِونگ نے بتایا کہ آٹھوں بلاکس کے الارم سسٹم ’غیرفعال‘ پائے گئے۔ متعدد رہائشیوں نے بتایا کہ انہیں ہمسایوں کو دروازہ کھٹکھٹا کر خبردار کرنا پڑا۔
گنجان آباد شہر
ہانگ کانگ دنیا کے سب سے گنجان آباد خطوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں 75 لاکھ کی آبادی محدود زمینی رقبے پر مرتکز ہے۔ شہر کی آبادی کا گھناؤ تقریباً 7100 افراد فی مربع کلومیٹر ہے، جو ٹوکیو جیسے میٹروپولیٹن شہروں کے برابر ہے۔

گذشتہ دہائیوں میں تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافہ بڑی حد تک رہائشی ٹاورز کی تعمیر کے باعث ہوا، جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کو جگہ فراہم کی گئی۔ حالیہ برسوں میں زیادہ تر تعمیراتی منصوبے نیو ٹیرٹریز میں قائم کیے گئے ہیں، جہاں تائی پو بھی واقع ہے۔
حکام نے اعلان کیا ہے کہ اس سانحے کے بعد ایسے تمام رہائشی منصوبوں کا معائنہ کیا جائے گا جہاں بڑی مرمت یا تعمیر کا کام جاری ہے۔












