یہ اوائل سرما کا ایک خوشگوار، قدرے خنک دن تھا، جب دوپہر کے وقت میں انٹرویو کرنے اردو کے ممتاز ادیب، فکشن نگار عبداللہ حسین کے گھر پہنچا تھا۔
عبداللہ حسین نے افسانے بھی لکھے مگر ان کی اصل شناخت ان کے ناولوں سے ہے۔ ان کا پہلا ناول ’اداس نسلیں‘ اردو کے چند مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ 60 کے عشرے میں شائع ہوا اور اب تک اس کے 40 سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ خواص و عام میں ایسی ادبی پذیرائی کم ہی ناولوں کو ملی ہے۔ اس کے بعد عبداللہ حسین نے ’باگھ‘ ناول لکھا، ’نشیب‘ ان کا ناولٹ ہے۔ ناول ’نادار لوگ‘ بھی شائع ہوا، اس کا دوسرا حصہ لکھ رہے تھے، مگر شائد وہ نامکمل ہونے کی وجہ سے شائع نہ ہو پایا۔
عبداللہ حسین دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ طویل قامت، سفید چھوٹی ڈاڑھی مونچھیں اور تیز چمکتی آنکھیں۔ انٹرویو دینا انہیں زیادہ پسند نہیں تھا، شائد صحافیوں کو زیادہ پسند بھی نہیں کرتے تھے۔ کوئی انٹرویو کے لیے درخواست دیتا تو پہلے اس کا انٹرویو لیتے۔ باقاعدہ پوچھتے کہ میری کون کون سی کتاب پڑھ رکھی ہے، کیا تاثر ہے اس کے بارے میں، وغیرہ وغیرہ۔
مزید پڑھیں
-
کیا پاکستان میں سیاست واقعی ختم ہو رہی ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 897525
عینی آپا (قرۃ العین حیدر) کی طرح عبداللہ حسین کو بھی اس سے چڑ تھی کہ ہر کوئی ان کے پہلے اور سب سے مشہور ناول ’اداس نسلیں‘ کے حوالے سے سوال کرتا ہے۔ وہ جھنجھلا کر کہتے، میں نے اور بھی خاصا کچھ لکھا ہے، اس کے بارے میں بھی بات کریں۔ یہی مسئلہ قرۃ العین حیدر کے ساتھ تھا۔ انہیں شکوہ تھا کہ ہر کوئی ’آگ کا دریا‘ پر بات کرتا ہے، اس کے بعد اتنا کچھ لکھا گیا، اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ عبداللہ حسین کو اپنا ناول ’باگھ‘ بہت پسند تھا۔ ’باگھ‘ کے بارے میں پسندیدہ رائے دینے والے صحافیوں پر وہ فوری مہربان ہو جاتے اور انٹرویو کے لیے بلا لیتے۔
عبداللہ حسین کا انٹرویو کرنے پہنچا۔ وہ ڈیفنس کے ایک گھر میں مقیم تھے، قریب ہی ان کی صاحبزادی کا گھر تھا۔ عبداللہ حسین اکیلے رہتے تھے، انہیں ملازم گھر میں رکھنا ناپسند تھا، ان کے بقول ملازم کے آنے جانے سے وہ ڈسٹرب ہوتے ہیں، ان کے ارتکاز میں فرق پڑتا ہے۔ بتانے لگے کہ بیٹی کھانا بھجوا دیتی ہے، چائے وغیرہ میں خود ہی بنا لیتا ہوں۔
ایک بڑا مسئلہ تو یہ بنا کہ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے عبداللہ حسین نے اچانک یوٹرن لے کر کہا کہ میں آپ کو انٹرویو کیوں دوں؟ کہنے لگے، آپ کا اخبار کروڑوں روپے کماتا ہو گا، آپ کی بھی جاب ہے، تنخواہ ملتی ہو گی۔ میں آپ کو مفت انٹرویو کیوں دوں؟ انگلینڈ میں تو اخبارات انٹرویو کرنے کے پیسے دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی پہلے معاوضہ طے کرو، پھر انٹرویو دوں گا۔ میں ہکا بکا انہیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک یہ سب کیا چل پڑا ہے۔ آرام سے سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
کچھ دیر ہلکی پھلکی بحث کے بعد تنگ آ کر میں نے جھنجھلا کر کہا، سر آپ کے انٹرویو سے ہمارے اخبار اور ہمارے مالکان کو قطعی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 20 30 برس مزید آپ کا انٹرویو نہ چھپے تب بھی انہیں کچھ نہیں ہو گا۔ یہ سیٹھ لوگ ہیں، انہیں کسی ادیب کی اہمیت کا کیا علم؟ میں یہ انٹرویو اپنی ذاتی پسند اور دلچسپی سے کر رہا ہوں، چونکہ میں آپ کا بڑا مداح ہوں۔ میرے جیسے بے شمار نوجوان آپ کے پڑھنے والے، آپ کے مداح ہیں۔ میں اپنے جیسے آپ کے دیگر مداحین کے لیے یہ انٹرویو کرنا چاہ رہا ہوں جو آپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں آپ کے خیالات، افکار سے شناسائی کے خواہش مند ہیں۔ تھوڑا سا مکھن بھی لگانا پڑا۔ انہیں اردو کا عظیم ترین ادیب قرار دیا۔ یہ مژدہ سنایا کہ آپ کے ناول پاکستان انڈیا میں بہت مقبول ہیں۔ ’اداس نسلیں‘ اور ’باگھ‘ کو لاکھوں لوگ پڑھ چکے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس طولانی تقریر اور مدح سرائی کے بعد وہ کسی قدر نرم پڑے، مسکرائے اور کہنے لگے ینگ مین، میں تم جیسے پڑھنے والوں کے لیے یہ فری انٹرویو دے رہا ہوں، ورنہ مجھے میڈیا مالکان سے کوئی دلچسپی نہیں۔

میں نے سنڈے میگزین کے لیے تفصیلی انٹرویو کرنا تھا، اس لیے ٹیپ ریکارڈر لے کر گیا تاکہ ریکارڈنگ ہو سکے۔ عبداللہ حسین نے ٹیپ ریکارڈر کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھایا کہ یہ کیوں لے آئے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی کسی مشین کے سامنے نہیں بول سکتے۔ مجبور ہو کر مجھے نوٹس لینے پڑے۔ دو گھنٹے تک دھڑا دھڑ نوٹس لیتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ بابا جی 20 25 برس انگلینڈ میں رہنے کے باوجود جدید ٹیکنالوجی سے اتنے بیزار کیوں ہیں۔
انٹرویو دلچسپ تھا، کئی امور پر انہوں نے کھل کر گفتگو کی۔ انہوں نے اپنے سب سے مشہور ناول ’اداس نسلیں‘ کے بارے میں بتایا: ’ان دنوں میں کیمیکل انجینیئر تھا، فارغ وقت کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے لکھنے کا خیال آیا۔ مجھے اس وقت اردو لکھنی نہیں آتی تھی۔ میں نے پنجابی اور انگریزی کا تڑکا لگا کر اپنی ڈکشن ایجاد کی۔ یہ ایک نئی قسم کی اردو تھی۔ خوش قسمتی سے اس وقت قارئین کو پسند آئی۔ شاید وہ لچھے دار اردو نثر پڑھ کر تنگ آ چکے تھے۔ انہیں ’اداس نسلیں‘ میں تازگی محسوس ہوئی۔ پھر اتفاق سے اگلی نسلوں نے بھی اس سٹائل کو پسند کیا۔ یہ ناول بہت مشہور ہوا۔ اس کا عنوان تو کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا بلکہ یہ زبان میں شامل ہو چکا ہے۔ میں سچی بات بتاؤں تو یہ صورت حال ہے کہ میں اب ’اداس نسلیں‘ سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں مگر پیچھا چھٹ نہیں رہا۔ میرا فیورٹ ناول ’باگھ‘ ہے۔‘
’میں ادب کے طالب علموں کو ہمیشہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ’باگھ‘ ضرور پڑھیں۔ دراصل اس کے ذمہ دار یہ نقاد حضرات بھی ہیں۔ میرے خیال میں ادب کے بیشتر نقادوں کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنی چاہیے، انہیں اس کی شدید ضرورت ہے۔ میرا آخری اردو کا ناول ’نادار لوگ‘ اگرچہ خاصا فروخت ہوا ہے مگر اسے بھی قدرے نظر انداز کیا گیا ہے۔‘

عبداللہ حسین کے بقول وہ حقیقت سے قریب ناول لکھتے ہیں۔ ان کے ناول حقیقی واقعات پر ہوتے ہیں اور ان میں تاریخ اور سیاست کا عکس موجود ہوتا ہے۔ ناول کی ریسرچ پر خاصا وقت لگاتے ہیں اس لیے ان کے ناول چار پانچ برس لے جاتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اردو میں بڑے ناول کم لکھے گئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ عبداللہ حسین کا بے لاگ جواب تھا کہ ’ہمارے ہاں محنت کرنے کی عادت نہیں ہے۔ لوگ محنت سے جان چھڑاتے ہیں۔ پانچ دس صفحے کی کہانی لکھ کر چھپوانے پہنچ جاتے ہیں۔ میں پانچ برس میں ناول لکھتا ہوں، پھر اسے صاف کرتا ہوں، یوں چھ برس لگ جاتے ہیں۔ لوگ اس سے گھبراتے ہیں کہ پانچ چھ برس تخلیہ میں بیٹھ کر ناول لکھا جائے۔ ان کا تو پانچ صفحے لکھ کر دم ٹوٹ جاتا ہے، جس طرح کبڈی کے کھلاڑی کا زیادہ زور لگانے سے دم ٹوٹ جاتا ہے۔ اصل محنت تو پانچ دس صفحات کے بعد شروع ہوتی ہے۔ میری یہ بات نوٹ کر لیں کہ ناول لکھنا صرف دماغی محنت نہیں بلکہ جسمانی محنت بھی ہے۔ دل میں زور ہوتا ہے تب ہی پانچ برس بیٹھ کر لکھا جا سکتا ہے۔ ناول کے لیے صرف دماغی زور کافی نہیں بلکہ اتنے برسوں تک اکیلے بیٹھ کر لکھنا جی داری کا کام بھی ہے۔‘
عبداللہ حسین نے اسی حوالے سے یہ کہا کہ بڑا ناول لکھنا بھی مشکل کام ہے اور بڑے ناول کو پڑھنا بھی۔ کہنے لگے کہ دوستئوفسکی کا ناول ’برادرز کرامازوف‘ پڑھنا بہت ضروری ہے، یہ عظیم ناول ہے، اسے پڑھنے میں دقت تو آئے گی، مگر پھر بھی پڑھنا چاہیے۔
شاعری پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ ’میں اردو، انگریزی دونوں زبانوں میں شعر پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ اردو کلاسیکی شعرا میں غالب اور میر پسند ہیں۔ میرے خیال میں غالب سب سے بڑا شاعر ہے۔ مجھے اقبال بڑا پسند ہے۔ بطور شاعر وہ عظیم ہے، ویسے ہم نے اقبال کو قومی شاعر بنا کر اسے رلا دیا ہے۔ اب وہ صرف نصاب کا شاعر ہو کر رہ گیا ہے۔ فیض صاحب کو میں نے بہت پڑھا۔ ناصر کاظمی میرے دوست تھے، وہ بھی اچھے لگے۔ جوش کے پاس الفاظ تو تھے مگر بطور شاعر وہ بڑے نہیں۔ انگریزی میں مجھے سب سے زیادہ ٹی ایس ایلیٹ پسند ہیں۔ اگرچہ ان کا تنقید میں بھی اہم کام ہے مگر بطور شاعر وہ بہت شاندار ہیں، ویسے مجھے فلسفہ سے بھی خاصی دلچسپی ہے۔‘

عبداللہ حسین کی شخصیت خاصی بارُعب تھی، ان سے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ کے بارے میں تاثر ایک سنجیدہ شخصیت کا ہے، محبت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ عبداللہ حسین بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہنے لگے کہ ’میں تو انتہائی رومانٹک آدمی ہوں اور آپ کو بتاؤں کہ فکشن لکھنے والا ہمیشہ رومانٹک ہوتا ہے۔ رومانس یا محبت فکشن کی ایک دائمی قدر ہے۔ میرا ناول ’اداس نسلیں‘ دراصل محبت کی کہانی ہے۔ نقاد اسے تاریخی ناول کہتے ہیں مگر میرے نزدیک یہ اردو میں لکھی جانے والی محبت کی سب بڑی کہانی ہے۔ محبت صرف لڑکے لڑکی، پسندیدگی، ملاقات، والدین کی رضامندی اور پھر شادی ہو جانے کا قصہ تو نہیں ہے۔ محبت کے لیے بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں، تب ہی محبت سے انصاف کر سکتے ہیں۔ اب ’اداس نسلیں‘ میں اتنے بڑے نواب کی بیٹی نے سارے خاندان سے بغاوت کر کے ایک غریب کسان کے لڑکے سے جس کا ایک بازو بھی نہیں، شادی کر لی۔ اس سے بڑی محبت کی قربانی اور کیا ہو گی؟ محبت کی بہت سی تعریفیں ہیں لیکن سب سے بڑی یہ ہے کہ اس میں ایثار اور قربانی دینی پڑتی ہے۔ میرا ناول ’باگھ‘ بھی محبت کی کہانی ہے۔ ویسے میں محبت اورعشق میں فرق روا رکھتا ہوں، عشق کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ ٹی وی ڈرامے دیکھنا پسند کرتے ہیں، مگر کبھی ٹی وی ڈرامہ لکھا نہیں، اس کی وجہ ان کے بقول یہ تھی کہ ’ڈرامہ لوگ جلد بھول جاتے ہیں، آپ بتائیں آپ کو کتنے پرانے ڈرامے یاد ہیں جبکہ ناول تو آپ کو 20 برس پہلے کا پڑھا ہوا بھی یاد ہو گا۔ اس لیے مستقل نوعیت کا کام ہی کرنا چاہیے۔‘
مذہب، زندگی بعد الموت وغیرہ کے بارے میں عبداللہ حسین کے نظریات عام لوگوں سے مختلف تھے، انہوں نے تھوڑا بہت اس بارے میں بتایا، جسے بیان نہ کرنا ہی شائد زیادہ مناسب ہو گا۔ وہ خود کو وجودیت پسند کہتے تھے، البرٹ کامیو ان کا فیورٹ تھا، سارتر کا فلسفہ بھی بہت پسند رہا۔ ان کے مطابق ’وجودیت پسندی کی فلاسفی میرے خیال اور تجربے کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہے۔ میرے فلسفے کے مطابق زندگی ایک حادثہ ہے۔ آپ ایک خاص خاندانی ماحول میں پیدا ہو گئے تو اس میں رنگے جاتے ہیں، وہی مذہب، وہی عقائد۔

انہوں نے کہا کہ ’ویسے جب انسان خاتمے کی طرف جاتا ہے تو فلسفی بن جاتا ہے۔ میں بھی اب بوڑھا ہو گیا ہوں اس لیے فلسفہ زیادہ حاوی ہو رہا ہے۔ ’نادار لوگ‘ کے دوسرے حصے میں فلسفیانہ نظریات پر بھی بحث کروں گا۔ ویسے تو یہ کتاب اب کمبل بن کر مجھے چمٹ گئی ہے۔ میں نے پہلے حصے کے آخر میں لکھ دیا تھا ’جاری ہے‘، اب سب کہتے ہیں کہ دوسرا حصہ لکھو، اس لیے مجبوراً لکھ رہا ہوں۔‘ (’نادار لوگ‘ کا دوسرا حصہ شائع نہیں ہوا۔ نجانے مکمل نہیں ہوا یا کوئی اور وجہ ہے۔)
انٹرویو مکمل ہوا تو عبداللہ حسین نے مجھے خود چائے بنا کر پلانے کی پیش کش کی۔ میری ہچکچاہٹ پر کہنے لگے، مجھے اس کی عادت ہے، ملازم گھر میں نہیں رکھتا، چائے خود ہی بناتا ہوں۔
مجھے اتنے بڑے اور بزرگ ادیب کو یہ زحمت دینا مناسب نہ لگی، معذرت کر کے رخصت ہوا۔ البتہ بعد میں تاسف ہوتا رہا کہ یہ پیش کش قبول کر لیتا۔ چائے ساتھ پینے کے بہانے چند منٹ مزید بیٹھ جاتا، کچھ غیررسمی گفتگو بھی ہو جاتی۔












