Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں سیاست واقعی ختم ہو رہی ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
آج کا کالم پاکستان اور پاکستانی سیاست کے حوالے سے ہے، مگر پہلے بین الاقوامی پس منظر میں ایک تاریخی واقع پڑھ لیں۔
فرانسس فوکویاما نامور امریکی دانشور، سیاسی ماہر اور استاد ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی مشہور زمانہ ہاورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی، کئی امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے، آج کل سٹینفورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔
جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے (سینٹرل ایشین ریاستیں، بالٹک ریاستیں اور یوکرین وغیرہ الگ ملک بنے)، تب فوکو یاما نے ایک کتاب لکھی جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا اور ایک نئی بحث شروع ہوئی۔ کتاب کا نام تھا اینڈ آف ہسٹری یعنی تاریخ کا اختتام۔ (مکمل نام تھا اینڈ آف ہسٹری اینڈ لاسٹ مین)۔
اپنی کتاب میں فرانسس فوکویاما نے بڑے اعتماد سے اعلان کیا کہ تاریخ ختم ہو چکی ہے۔ اب دنیا صرف لبرل ڈیموکریسی کے راستے پر چلے گی اور کوئی نظریاتی مقابلہ باقی نہیں رہا۔
اس بڑے دعوے کے تین دہائیاں گزرنے کے بعد آج دنیا ہمارے سامنے ہے۔ اگر تاریخ ختم ہو چکی ہوتی تو آج امریکہ میں ٹرمپ کی اتنی مقبولیت نہ ہوتی، برطانیہ بریگزٹ نہ کرتا، روس یوکرین پر حملہ نہ کرتا، چین ریاستی سرمایہ داری کے ساتھ ترقی نہ کرتا، ترکی میں اردوغان نہ ابھرتے، انڈیا میں شدید ہندو قوم پرستی نہ ابھرتی اور یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے خیالات مضبوط نہ ہوتے۔
یہ سب واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ تاریخ، سیاست اور نظریاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوتی، صرف رخ بدلتی ہے۔
پاکستان میں سیاست کا خاتمہ؟
جس طرح فرانسس فوکویاما نے تاریخ کے اختتام کی بات کہی تھی، بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی بعض حلقے اور اہل دانش سیاست اور سیاسی جماعتوں کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔
آج پاکستان کی سیاست کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیاست کا باب بند ہو چکا۔ لیکن سوال وہی ہے جو فوکویاما کے نظریے پر اٹھا تھا، کیا واقعی؟
سچ تو یہ ہے کہ اختتام کا دعویٰ اکثر فتح کے لمحے میں کیا جاتا ہے؛ مگر وقت ثابت کرتا ہے کہ وہ اختتام نہیں، ایک عبوری وقفہ ہوتا ہے۔
اگلے روز ایک معروف پاکستانی دانشور اور کالم نگار کا فکر انگیز مضمون ’سیاست کا خاتمہ‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ انہوں نے اس میں کئی دلچسپ نکات بیان کیے، جن میں سے بعض یہ تھے:
’پاکستان میں سیاست اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں نظری، بیانیاتی یا قیادتی بنیادوں پر قائم نہیں رہیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب آزاد جماعتیں نہیں بلکہ موجودہ بندوبست کا حصہ ہیں۔
تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ کلٹ قرار دی گئی۔
جماعت اسلامی تحریک و سیاست کے بیچ الجھی رہی۔
جے یو آئی کی بنیاد مسلکی عصبیت ہے، سیاست کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
27ویں آئینی ترمیم کے بعد مستقبل میں صرف ایک پرو سٹیٹ یا ’ریاست موافق‘ جماعت باقی رہے گی۔ پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ کا کردار صرف ریاستی حکمت عملی نافذ کرنا ہو گا۔ اختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی، وغیرہ وغیرہ۔‘

اپنی کتاب میں فرانسس فوکویاما نے بڑے اعتماد سے اعلان کیا کہ تاریخ ختم ہو چکی ہے۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

چند بنیادی سوالات
پہلا سوال تو اس بنیادی تھیسس کے حوالے سے ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں سیاست ختم ہو چکی یا ختم ہونے والی ہے یا اس کی شکل اور سٹرکچر تبدیل ہو رہی ہے؟
2: کیا سیاسی مرکزیت مضبوط ہوئی ہے یا سیاسی جماعتیں کمزور ہونے سے یہ تاثر پیدا ہوا؟
3: پاکستانی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں خلا زیادہ دیر نہیں رہتا۔ ہر سیاسی بندوست آخرکار چیلنج ہوتا ہے اور چند برسوں کے وقفے کے بعد چیزیں ریورس ہوتی ہیں۔ اس بار ویسا ہوگا یا کچھ مختلف؟
4: کیا تحریک انصاف واقعی صرف ایک کلٹ ہے یا عوامی سیاسی قوت کا ایک نیا مظہر؟
5: کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک بڑی چھتری کے زیرِسایہ مل جل کر کئی برسوں تک اقتدار میں شریک رہیں گی یا ان کے داخلی تضادات اور فطری اختلافات ایک دوسرے کے مدمقابل لے آئیں گے؟
6: کیا پاکستان میں دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح غیرسیاسی ہائبرڈ ماڈل کا تجربہ کامیاب رہ پائے گا؟ یہاں کے عوام جمہوریت، سیاسی آزادی، اظہار رائے وغیرہ کو چھوڑکر جینا سیکھ جائیں گے؟
7: اگر ریاست سیاسی جماعتوں کو غیرمتعلق اور غیرمؤثر کرکے تمام اصلاحات کا بوجھ اٹھا لے گی تو پھر احتساب کیسے ممکن ہو گا؟ شفافیت کیسے رہے گی؟ آئی ایم ایف کے الفاظ میں ایک کرپٹ ترین انتظامی حکومتی ڈھانچے کے ساتھ یہ سب کچھ ڈیلیور کیسے ہو گا؟

’پاکستان میں دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح ہائبرڈ نظام یا یک جماعتی نظام لانا شاید ممکن نہ ہو کیونک ہمارا معاشرہ زیادہ متنوع، متحرک اور اوپن ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

متبادل بیانیہ
اوپر اٹھائے گئے سوالات کی فہرست میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے، اس پر بات ہونی چاہیے، سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ ہم صرف چند مختصر نکات میں اپنی رائے بیان کریں گے، اس پر تفصیلی نقد یا کلام تو اہل علم کو کرنا چاہیے۔
سیاست ختم نہیں بلکہ شکل تبدیل ہوئی
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ نیا سیاسی ماڈل تشکیل پا رہا ہے جہاں جماعتیں ناکام اور کمزور ضرور ہیں، مگر سیاسی شعور اور عوامی شمولیت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ سیاست سے الرجک ہو چکے یا تنگ آ گئے ہیں ۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ اپنی پوری تاریخ میں کبھی اتنا سیاست زدہ نہیں ہوا تھا جتنا آج ہے۔ البتہ اب نیا رجحان اینٹی پارٹی سیاست کا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے بجائے سیاست کا نیا مرکز ڈیجیٹل دنیا اور سوشل میڈیا ہے۔ بزنس سیکٹر، سکیورٹی، اکاؤنٹس، بینکس، انڈسٹری، زراعت، آئی ٹی غرض ہر جگہ کے پروفیشنلز اور حتیٰ کہ گھریلو خواتین تک میں سیاست سرائیت کر چکی ہے۔ ہر کوئی پولیٹیسائز ہے۔ سیاست اوپر سے کمزور، نیچے سے مضبوط ہے۔ پاکستان میں سیاست نہیں مرتی، صرف شکل بدلتی ہے۔ اس وقت وہ پارٹی کے دفتروں سے نکل کر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور عوامی گفتگو میں منتقل ہو چکی ہے۔
گذشتہ دو برسوں میں مسلسل سیاسی بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، مگر ہر بار ردعمل ہو رہا ہے، گو اس کا اظہار سڑکوں، جلسہ گاہوں کےبجائے ڈیجیٹل سطح پر ہوتا رہا۔
پاکستان کا سماجی فیبرک مختلف ہے
پاکستان میں دنیا کے بعض دیگر ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ممالک کی طرح ہائبرڈ نظام یا یک جماعتی نظام لانا شائد ممکن نہ ہو کیونک ہمارا معاشرہ زیادہ متنوع ، متحرک اور اوپن ہے۔ یہاں معلومات کا بہاؤ بھی بہت زیادہ ہے اور اسے یکسر بند کرنا ممکن نہیں۔

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے، طبقاتی تقسیم بڑھ رہی ہے، جبکہ پس ماندہ اور محروم کمیونیٹز بھی زیادہ ہیں۔ یہاں عوامی خوشحالی کی ایسی سطح تک اگلے چند برسوں میں پہنچنا ممکن نہیں جس کے بعد لوگ اپنے حال میں مست زندگی سے لطف لیتے ہیں، انہیں کسی چیز کی کوئی پروا نہیں رہتی۔ پاکستان میں ایسا معجزہ رونما ہونا بعید ازقیاس ہے۔ جیسے ہی معاشی دباؤ بڑھے گا، تب پھر سے سیاسی سٹیک ہولڈرز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
کیا تحریک انصاف واقعی ایک کلٹ ہے؟
تحریک انصاف کو ایک کلٹ قرار دینا بھی پرلے درجے کا بھولپن ہے۔ ایک علمی و سیاسی مبالغہ، کم فہمی کہنا شاید سخت لفظ ہو، البتہ اسے انٹلیکچوئل سادہ لوحی کہہ سکتے ہیں۔ کلٹ دراصل کسی آئیڈیالوجی کے بغیر بلائنڈ فولوئنگ کو کہتے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کی تنظیم خواہ کیسی کمزور ہو، پارٹی کے پاس کیڈر موجود نہ ہو لیکن بہرحال اس کی ایک آئیڈیالوجی ہے اور اسی وجہ سے اس کی بہت بڑی فولوئنگ بنی۔
تحریک انصاف کا بنیادی نظریہ اینٹی سٹیٹس کو، احتساب، میرٹ، شفافیت، لوٹے ہوئے مال کی سرکار کو واپسی اور اربن مڈل کلاس جذبات پر مبنی ہے۔ یہ پہلی جماعت ہے جس نے شہری مڈل کلاس، دیہی نوجوان اور بزرگ ووٹروں کے ساتھ پڑھی لکھی وائٹ کالر کلاس اور اوور سیز پاکستانیوں کو بیک وقت متوجہ کیا اور یہ سب طبقات سیاست میں پہلی بار شامل ہوئے۔
تحریک انصاف کے بارے میں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ یہ صرف جنریشن زی کی جماعت ہے یا نوجوانوں نے اسے ووٹ دیا۔ الیکشن پولیٹکس کے ایک سنجیدہ ماہر اور تجزیہ نگار احمد اعجاز کے مختلف سرویز کے مطابق گذشتہ برس آٹھ فروری کو بڑی عمر کے لوگوں اور خواتین کی بہت بڑی تعداد نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی نے ان لوگوں کو ڈیجیٹل پولیٹکل ایکٹوازم کی طرف متوجہ کیا جو پہلے سیاست کو گالی سمجھتے تھے۔

’پاکستانی سیاست دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس)

اگر تحریک انصاف کی سیاست کو غور سے دیکھا جائے تو اس نے دراصل ہماری روایتی سیاسی جماعتوں خاص کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ناکامی سے پیدا ہونے والے خلا سے جنم لیا ہے۔ یہ صرف عمران خان کا شخصی سحر یا ان کے لیے شخصیت پرستی نہیں بلکہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی فرسٹریشن کا مظہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں کلٹ نہیں بلکہ ایک معاشرتی طبقاتی ردعمل۔
پاکستانی سیاست دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست ختم نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان جیسے سماج سے سیاست کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ یہاں سیاست صرف ووٹ یا جماعت نہیں بلکہ شناخت، طبقہ، احساس محرومی اور طاقت کے ساتھ جڑی ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
پاکستان میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ ’نظام‘ سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور سیاسی عمل کو ادارہ جاتی سطح پر چینلائز کرے۔
مشاورتی گورننس سسٹم کی طرف جانا چاہیے۔ صرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی یا غیرحقیقی سیاسی نمائندوں کے بجائے سماج، معیشت، میڈیا اور حقیقی سیاسی نمائندوں کو ایڈوائزری سٹرکچر میں شامل کیا جائے۔
بلدیاتی اور مقامی سطح کی سیاست کو مضبوط کریں۔ سیاسی آکسیجن لازمی ہے، اسے مقامی سطح پر ہی شامل کر دیں۔ بلدیاتی اداروں کو بحال اور مضبوط بنائیں۔ صوبوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اختیارات اور فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے گراس روٹ لیول پر منتقل کریں۔
نوجوانوں، لوئرمڈل کلاس، اربن اوپینین میکرز وغیرہ سے بامقصد اور اوپن مکالمہ کیا جائے۔
ان اور ایسی کچھ دیگر تبدیلیوں کے ذریعے ایک متوازن، جدید اور جوابدہ سیاسی ماڈل جنم لے سکتا ہے۔

 

شیئر: