Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہار الیکشن میں مودی نے غیرمعمولی کامیابی کیسے حاصل کی؟ عامر خاکوانی کا کالم

بہار کے انتخابات میں بی جے پی نے سب سے زیادہ یعنی 89 نشستیں حاصل کی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نومبر کا دوسرا ہفتہ انڈین سیاست میں بہت اہم تصور ہو رہا تھا کیونکہ اسی میں ایک اہم ریاست بہار کا ریاستی الیکشن ہونا تھا۔ اسی الیکشن کے نتیجے سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا سیاسی مستقبل وابستہ ہو چکا تھا۔
کہا جا رہا تھا کہ اگر مودی بہار کا الیکشن ہار گئے تو پھر ان پر آر ایس ایس کی جانب سے دباؤ بڑھ جائے گا کہ خود پیچھے ہٹ جائیں اور اپنے کسی سیاسی جانشین کو آگے لے آئیں۔ اسی طرح انڈین نیشنل کانگریس اور راہُل گاندھی کی واپسی کا بھی اسی ریاستی الیکشن سے پتہ چلنا تھا۔ پاکستان میں اس صورت حال کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا رہا تھا۔
ہمارے ہاں میڈیا، سوشل میڈیا اور تجزیہ کاروں کا تاثر تھا کہ آپریشن سندور کا جو نتیجہ نکلا، جس طرح انڈیا کو خفت اٹھانا پڑی اور عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری برتری کا تاثر بنا، اس سے بی جے پی اور نریندر مودی کی انڈیا کے اندر مقبولیت کم ہو چکی ہے اور بہار کے الیکشن میں انہیں شکست ہو جائے گی۔
الیکشن نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں جو کچھ سمجھا جا رہا تھا، اس کے برعکس ہوا ہے۔ بہار کے الیکشن میں مودی فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ پہلے سے زیادہ طاقتور، پہلے سے زیادہ خطرناک اور بااثر۔

الیکشن نتائج

مودی اور ان کے اتحادیوں نے بہار کے الیکشن میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی ہے۔ بی جے پی کے اتحاد یعنی این ڈے اے نے کل 243 میں سے 202 نشستیں حاصل کر کے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ توقعات سے بھی زیادہ بہتر پرفارمنس۔
مودی کی جماعت بی جے پی نے سب سے زیادہ یعنی 89 نشستیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان کے اتحادی سابق وزیراعلٰی نتیش کمار کی جنتا دل یونائٹڈ نے 85 اور رام ولاس کی پارٹی نے 19 سیٹیں جیتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں کانگریس کو صرف چھ سیٹیں ملی ہیں، اگرچہ اس نے 61 نشستوں پر الیکشن لڑا۔ کانگریس کے اتحاد مہاگٹھ بندھن کو بمشکل 30 35 سیٹیں ملیں۔ کانگریس کی سب سے بڑی اتحادی جماعت راشٹریہ جنتا دل تھی، جس کے بانی اور سرپرست لالو پرساد یادو ہیں۔ وہی لالو پرساد جن کے نام پر ایک گیت بھی مشہور ہوا تھا؛ ’جب تک سموسے میں آلو رہے گا، تب تک بہار میں لالو رہے گا۔‘
اب لالو پرساد ضعیف اور علیل ہیں، کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، ان کی جگہ ان کا بیٹا تیجسوی یادو پارٹی سنبھالتا ہے۔ یہ کانگریس کے مین اتحادی تھے مگر اس الیکشن میں ان کا بھی بیڑا غرق ہوا ہے اور صرف 25 سیٹیں ہاتھ آئیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ الیکشن میں اسی جماعت نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں اگرچہ نتیش کمار اور بی جے پی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ بہرحال اس بار لالو پرساد کی پارٹی ٹھس ہو گئی۔
الیکشن میں بعض نئی جماعتیں بھی آئی تھیں، وہ ناکام ہوئیں، خاص کر پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی۔ اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین نے البتہ پانچ نشستیں جیتی ہیں۔ اویسی کی پارٹی نے بعض سیٹوں میں مسلم ووٹ لے کر کانگریس کو قدرے نقصان بھی پہنچایا۔

پاکستانی مبصرین کے اندازے کیوں غلط ہوئے؟

پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ بیانیہ چل رہا تھا کہ چونکہ آپریشن سندور میں مودی حکومت موثر پرفارمنس نہیں دکھا پائی، رفال طیارے گرنے سے انہیں ندامت اٹھانا پڑی۔ جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، وہ ناکام ہوئے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور جگہ جگہ سات طیارے گرنے کی بات کر کے مودی حکومت کے لیے خفت کا ساماں پیدا کیا۔ ہمارے ہاں یہ خیال تھا کہ اس کا اثر بہار کے الیکشن میں سامنے آئے گا۔
ایسا نہیں ہو سکا۔ بہار کے نتائج نے یہ بات غلط ثابت کر دی۔ ریاستی سطح پر بی جے پی نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کی گرفت گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا ایک بہت ہی متنوع، بے پناہ قسم کی لسانی، طبقاتی، قومیتی تقسیم والا ملک ہے۔ اس کی سیاست بھی پیچیدہ ہے، وہاں پر بعض اوقات نیشنل لیول پر سیاست کچھ اور طرح سے چلتی ہے جبکہ ریاستی یعنی صوبائی سطح پر سیاست کا رخ اور رنگ مختلف ہوتا ہے۔
انڈیا کی ریاستی سیاست قومی سلامتی کے بیانیے سے ہمیشہ متاثر نہیں ہوتی۔ بہت سی ریاستوں میں مقامی ذات پات کی تقسیم اور طبقاتی ووٹ، ویلفیئر سکیمز اور مقامی سیاسی اتحاد زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ بہار میں یہ سب کچھ بی جے پی اور مودی کے حق میں گیا یا یہ کہہ لیں بڑے طریقے سے اسے اپنے حق میں بنایا گیا۔
کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ مودی کا مقبولیت کا گراف قائم ہے، ان کی شخصیت میں کشش بدستور موجود ہے اور وہ ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ مودی نے اس جیت پر کہا ہے کہ ’میں نے بہار کے لو گوں کا دل چرا لیا ہے۔ اس جیت نے بنگال میں بی جے پی کی جیت کے لیے راستے ہموار کر دیے ہیں۔‘ ایسا ہو پائے یا نہیں، لیکن ابھی مودی دعوے تو کر سکتے ہیں۔

اب لالو پرساد یادو کی جگہ ان کا بیٹا تیجسوی یادو پارٹی سنبھالتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بہار کے اہم سیاسی گروہ اور پاکٹس

بہار میں کاسٹ سسٹم بہت زیادہ ہے، یہاں ان کی سیاسی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ ای بی سی یعنی ایکسٹریملی بیک ورڈ کاسٹ، او بی سی یعنی ادر بیک ورڈ کاسٹ، مہا دلت، اپر کاسٹ، مسلم ووٹ۔ یہ سب مختلف گروہ ہیں۔
او بی سی انڈیا میں وہ سماجی گروہ ہے جو تاریخی، معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندہ سمجھے جاتے ہیں، انہیں ملازمتوں، تعلیمی اداروں میں کوٹہ اور دیگر سہولتیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ او بی سی میں سے بھی سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ ای بی سی کہلاتا ہے۔ بہار میں ای بی سی ایک بہت مضبوط سیاسی بلاک ہے، جس پارٹی کو یہ ووٹ ملے تو اسے جیت میں سہولت ہو جاتی ہے۔ نتیش کمار کا زیادہ کام اسی حلقے میں ہے۔ ہر الیکشن لڑنے والا ان تمام ووٹر بلاکس کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ الیکشن نتائج سے اندازہ ہوا کہ بی جے پی کا اتحاد اس حوالے سے زیادہ موثر اور کامیاب ہوا۔

مودی کی جیت کے اہم فیکٹرز

مضبوط شخصی تاثر اور مستحکم سیاست: یہ ایک اہم فیکٹر ہے کہ بی جے پی کے اتحاد کو نریندر مودی کی شخصی کشش اور نتیش کمار کے ایماندار امیج کا بھی ایڈوانٹیج تھا اور ساتھ ہی یہ یہ تاثر بھی ان کے ساتھ تھا کہ بی جے پی اور نتیش کمار کی جماعتوں کی مخلوط حکومت اچھے سے صوبے کو چلا سکے گی۔ دوسری طرف کانگریس اور تیجسوی یادو کے اتحاد مہا گٹھ بندھن میں انتشار اور کمزوری کا تاثر مل رہا تھا۔ ریاستی انتخابات میں لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی حکومت مضبوط اور مستحکم رہے گی اور اسے کام کرنے کا موقعہ ملے گا۔ یہ بات کانگریس کے خلاف گئی۔
غیرمعمولی سیٹ مینجمنٹ: مودی اور ان کے اتحادیوں نے گراؤنڈ لیول پر سیٹ بائی سیٹ پلاننگ کی۔ وہ آپس میں سیٹوں کے جھگڑے میں نہیں پڑے، صرف یہ دیکھا کہ کہاں کون سا امیدوار مقامی سطح پر زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔

او بی سی انڈیا میں وہ سماجی گروہ ہے جو تاریخی، معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندہ سمجھے جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: دی نیو انڈین ایکسپریس)

اس کے برعکس کانگریس کے اتحاد میں سیٹوں پر بہت سے اختلافات نظر آئے۔ کانگریس نے 70 سیٹوں کا مطالبہ کیا اور 61 پر الیکشن لڑا مگر صرف چھ سیٹیں جیت پائی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس صرف 10، 12 سیٹوں ہی پر اچھا الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں تھی، اسے زیادہ لالچ کے بجائے صرف اپنی مضبوط سیٹوں پر فوکس کرنا چاہیے تھا اور باقی سیٹیں مقامی سطح پر زیادہ بڑی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کو دے دینی چاہیے تھیں۔
اسی جھگڑوں کی وجہ سے امیدوار بھی دو ہفتے بعد فائنل کیے گئے جس کا الیکشن مہم میں بہت نقصان ہوا۔
دھڑوں کی کامیاب سیاست: بی جے پی اور اس کے اتحادی نتیش کمار کی جماعت نے بہت اچھی دھڑوں کی سیاست کی۔ بی جے پی کی اصل بنیاد اعلٰی زات کے ہندو ہیں۔ انہوں نے اپنی قوت کو نہیں چھوڑا اور ان کے ساتھ او بی سی میں بھی نفوذ کیا۔ نتیش کمارکی اصل قوت انتہائی پسماندہ ذاتیں یعنی ای بی سی ہیں۔ نتیش کے جنتا دل یونائٹڈ نے ای بی سی اور خواتین ووٹ بنک کو بہت اچھے سے موبائلائز کیا اور اس کے ثمرات وصول کر لیے۔ جنتا دل یونائٹڈ کو کسی حد تک مہا دلت ووٹ بھی ملا۔
ڈبل انجن سرکار: یہ دلچسپ نعرہ بی جے پی نے متعارف کرایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکز میں جس کی حکومت ہو، صوبے میں بھی اس کی حکومت اگر بنے تو زیادہ کام ہوں گے، یعنی ڈبل انجن والا ایفیکٹ ملے گا۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ دونوں جگہ ان کی حکومت ہو تو ترقیاتی کام جلد ہوتے ہیں۔ فنڈز جاری ہونا آسان ہوتا ہے۔ ریاستی و مرکزی حکومت ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی ہیں۔ سیاسی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ پروجیکٹس وقت پر مکمل ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسے ڈبل انجن کہا جاتا ہے یعنی دو انجن چلیں گے تو رفتار دوگنی ہو گی۔

بی جے پی کے اتحاد کو نریندر مودی کی شخصی کشش اور نتیش کمار کے ایماندار امیج کا بھی ایڈوانٹیج تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ نعرہ بی جے پی نے سب سے زیادہ اتر پردیش، آسام، اتراکھنڈ، منی پور اور اب بہار میں استعمال کیا۔ اس الیکشن میں نعرہ یہ لگایا گیا تھا، ’بہار صرف اسی صورت ترقی کرے گا جب دہلی اور پٹنہ ایک ہی سمت میں چلیں گے‘، یہ نعرہ بی جے پی کی فتح کے اہم عوامل میں شمار کیا جا رہا ہے۔
امدادی سکیمیں اور اعلانات: بی جی پی کی کامیابی میں اس فیکٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ حکومت میں ہیں، ان کے پاس مرکز کے بھی فنڈز ہیں اور بہار کے ریاستی فنڈز بھی پانچ برس رہے۔ بی جے پی نے سڑک، بجلی، راشن اور مختلف سبسڈیز کو کامیابی سے استعمال کیا۔ نتیش کمار کی حکومت کے دور میں لا اینڈ آرڈر بھی بہتر ہوا، یہ بھی پلس پوائنٹ گیا۔
مودی نے ابھی بہار کی ایک کروڑ سے زائد خواتین میں 88 کروڑ کے قریب پیسے بطور امداد کے تقسیم کیے۔ اس کا انہیں فائدہ پہنچا۔ خواتین ووٹ ٹرن آوٹ اس بار تاریخی رہا۔ ویسے بہار میں غیرمعمولی ٹرن آؤٹ ہوا ہے۔ ووٹرز کی بہت بڑی تعداد نے باہر آ کر بی جے پی کے اتحاد کو ووٹ ڈالا اور انہیں تین چوتھائی اکثریت سے نشستیں دلا دیں۔
بی جے پی کی طاقتور بوتھ لیول کارکن مشینری: سب سے اہم آر ایس ایس اور بی جے پی کی ہر یونین کونسل میں، ہر الیکشن بوتھ کی سطح پر تربیت یافتہ، منظم کارکنوں کی مشینری ہے جو ہر الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کارکنوں کا ایسا مضبوط اور طاقتور کیڈر کسی اور جماعت میں نہیں۔
بی جے پی کو یہ مدد اپنی سیاسی سرپرست شدت پسند ہندو نظریاتی جماعت آر ایس ایس سے ملتی ہے۔ آر ایس ایس کا خوفناک حد تک طاقتور عوام کی نچلی ترین سطحوں تک سرائیت کیا گیا نیٹ ورک ہے۔ کانگریس یا کسی بھی دوسری جماعت کے پاس اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔

انتخابات میں خواتین ووٹ ٹرن آؤٹ اس بار تاریخی رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بہار میں کمزور پڑتے مسلمان

بہار میں مسلمان نمائندگی ہر الیکشن کے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ دس برس پہلے سنہ 2015 کے الیکشن میں ریاستی اسمبلی میں 24 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ پانچ سال قبل سنہ 2020 کے الیکشن میں یہ تعداد کم ہو کر 19 ہو گئی۔ اس بار سب سے کم مسلمان ارکان اسمبلی میں پہنچے ہیں، صرف 11۔
مسلم نیٹ ورک ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلم امیدواروں کو پہلے کے مقابلے میں کم ٹکٹ دیتی ہیں، اور ان کے ووٹ مخصوص چند حلقوں خصوصاً کشن گنج، ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ مزید یہ کہ مسلمان امیدوار مخلوط یا شہری حلقوں صوبائی دارالحکومت پٹنہ، دربھنگہ اور گیا وغیرہ سے تقریباً غائب ہیں۔ کئی جگہوں پر سہ فریقی مقابلوں نے بھی مسلمان امیدواروں کو نقصان پہنچایا اور مودی کے اتحاد این ڈی اے کو کم مارجن سے جیتنے میں مدد دی۔‘
’مسلمان قانون سازوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کے باعث کابینہ میں شمولیت، پارلیمانی کمیٹیوں اور بجٹ ترجیحات پر ان کے اثر میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی اہم پالیسی شعبے جیسے مدرسہ اصلاحات، اقلیتی سکالر شپ، کوسی، سیمانچل میں سیلابی ڈھانچے، اور سرحدی علاقوں میں روزگار جیسے معاملات میں پس منظر میں جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘
خدشہ یہ ہے کہ یہ بہار کی سیاست میں نیو نارمل نہ بن جائے اور مسلمان ووٹ بینک مزید بے توقیر ہو۔

بہار الیکشن سے مودی کو کیا فائدہ ہو گا؟

سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ اگر نریندر مودی پر آپریشن سندور کے کچھ منفی اثرات تھے تو وہ ان سے باہر نکل آئے۔ وہ خود کو پہلے سے زیادہ طاقتور اور پراعتماد محسوس کر رہے ہیں۔

بہار الیکشن کے بعد نریندر مودی خود کو پہلے سے زیادہ طاقتور اور پراعتماد محسوس کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈین مسلمانوں اور خود پاکستان کے لیے یہ پریشانی اور خطرے کی بات ہے کیونکہ مودی جب زیادہ پراعتماد اور قوت میں ہوتے ہیں تو وہ اپنے شدت پسندانہ ہندو ایجنڈے پر زیادہ کاربند ہو جاتے ہیں۔ وہ کوئی بھی مزید جارحانہ قدم اٹھا سکتے ہیں، کوئی اور ایڈونچر۔
انڈیا کی مقامی سطح میں مودی کے لیے اگلے چیلنج ویسٹ بنگال، کیرالہ اور تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات ہیں جہاں وہ شد و مد سے اپنے پیر جمانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھیں وہاں کیا ہوتا ہے کہ بہار کی نسبت بنگال اور تمل ناڈو میں مقامی جماعتیں اور اتحاد بھی طاقتور اور منظم ہیں۔

 

شیئر: