پاکستان میں سیرین ایئر اور ایئر سیال کی اندرون پروازیں چند ماہ سے منسوخی کا شکار کیوں؟
پاکستان میں سیرین ایئر اور ایئر سیال کی اندرون پروازیں چند ماہ سے منسوخی کا شکار کیوں؟
پیر 1 دسمبر 2025 19:27
ایئر سیال کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ وہ ملکی پروازیں بحال کرے (فوٹو: ایئر سیال)
پاکستان میں سیرین ایئر اور ایئر سیال کی اندرون ملک پروازیں چند ماہ سے منسوخی کا شکار ہیں۔ اس بات کا انکشاف وزیرِ دفاع و ہوا بازی خواجہ محمد آصف کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں ہوا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ایئر لائنز کے ایئرکرافٹ گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے ملکی پروازیں مسلسل متاثر ہیں۔
قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے حال ہی میں سیرین ایئر کے قابلِ پرواز طیاروں کی عدم دستیابی کے سبب اس کا ایئر آپریٹر سرٹیفکیٹ (اے او سی) معطل کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ایئر لائن کی دو اکتوبر 2025 سے تمام شیڈول ملکی پروازیں منسوخ ہوئیں۔
جبکہ ایئر سیال کو اس ضمن میں شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ایئر لائن ملکی رابطے بحال نہ کر سکی تو موسمِ سرما کے شیڈول 2025 سے اس کی بین الاقوامی پروازوں کی حد بندی و معطلی پر غور کیا جائے گا۔
بنیادی طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ سوال رکنِ قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے اٹھایا تھا اور انہوں نے وزیرِ دفاع و ہوا بازی خواجہ آصف سے دریافت کیا تھا کہ آیا یہ درست ہے کہ ملک میں بالخصوص اسلام آباد ایئرپورٹ پر پروازوں کے شیڈول کی منسوخی معمول بن چکی ہے؟ جبکہ انہوں نے اپنے سوال میں اسلام آباد تا کراچی کرایوں میں حد سے زیادہ اضافے کے حوالے سے بھی وجوہات جاننے کی درخواست کی تھی۔
خواجہ آصف کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کراۓ گئے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ ایئر سیال نے اب اپنی ملکی پروازوں کا آپریشن دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) غیر مطابقت کی بنیاد پر کارروائی کے لیے ایئر لائنز کی شیڈول کارکردگی کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ پی آئی اے، ایئر بلیو اور فلائی جناح ملکی روٹس پر معمول کے مطابق آپریشن کر رہی ہیں۔
خواجہ آصف کی جانب سے ایئر لائنز کے مقامی کرایوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کرایوں کا تعین مسابقت کے اصولوں کے تحت ہوتا ہے اور یہ طلب و رسد، فضائی سروس کے معیار اور دستیاب سہولتوں کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی انتظامیہ کا مقصد ہوابازی کے شعبے میں حفاظت، سکیورٹی اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ مزید یہ کہ کوئی بھی ملک فضائی سفر کے کرایوں کو اس لیے فکس نہیں کرتا تاکہ قیمت، معیار اور سفری سہولتوں کے درمیان توازن برقرار رہ سکے۔
قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ تاریخی طور پر ملکی سطح پر کرائے اوسطاً 25 ہزار روپے کے قریب رہے ہیں۔ چند مواقع پر بظاہر حد سے زیادہ کرایوں کا مشاہدہ صرف اس وقت ہوا ہے جب ٹکٹ خریدنے کا وقت پرواز کے مقررہ وقتِ روانگی کے بہت قریب تھا۔
ملک عامر ڈوگر نے وزیرِ ہوا بازی سے یہ استفسار کیا کہ ملتان سے اب مقامی پروازیں نہیں چل رہیں (فوٹو: ایئر سیال)
’تاہم ایسے چند واقعات کو عمومی یا نمائندہ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، جیسا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً تاثر دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس متعدد مواقع پر یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ایئر لائنز کو نقصان میں کمی کے لیے خالی نشستیں پر کرنے کی خاطر ٹکٹیں منافع کے بجائے کم نرخوں پر فروخت کرنا پڑی۔‘
جواب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایئر لائنز منافع بخش ادارے ہیں اور قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہیں۔ پی سی اے اے ایئر لائنز کے لاگت و منافع کے ڈھانچے کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے اور اگر مناسب سمجھا گیا تو زیادہ کرایوں پر ایک معقول بالائی حد مقرر کی جا سکتی ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ایئر لائنز مسافروں خصوصاً ان سے جو اپنا سفر بروقت منصوبہ بندی سے کرتے ہیں، ناجائز وصولیاں کر رہی ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکن پی ٹی آئی ملک عامر ڈوگر اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ممبران نے یہ سوال اٹھایا کہ ملک میں کوئٹہ اور پھر ملتان کے لیے بھی مقامی پروازیں یا تو بہت کم کر دی گئی ہیں یا مکمل طور پر بند ہیں۔
ملک عامر ڈوگر نے وزیرِ ہوا بازی سے یہ استفسار کیا کہ ملتان سے اب مقامی پروازیں نہیں چل رہیں، جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے شہریوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وزیرِ ہوا بازی سے استفسار کیا کہ اس معاملے کو دیکھ کر کوئی حل تلاش کیا جائے۔
اردو نیوز نے اس معاملے پر دونوں ایئر لائنز سے موقف لینے کی کوشش کی، تاہم معلوم ہوا کہ اس موضوع پر ان کی جانب سے کوئی ترجمان دستیاب نہیں ہے۔
سابق چیئرمین پی آئی اے اور ایوی ایشن کے ماہر عرفان الٰہی سے رابطہ کیا اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایک طویل عرصے تک ایئر لائنز مقامی پروازیں کیوں نہیں چلاتیں اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
عرفان الہیٰ نے کہا کہ ایوی ایشن کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ دونوں طرح کی پروازیں معطل کر سکے (فوٹو: سی اے اے)
اس سوال کے جواب میں عرفان الٰہی کا کہنا تھا کہ یوں تو پروازیں منسوخ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں تکنیکی مسائل اور آپریشنل امور سر فہرست ہوتے ہیں۔ تاہم طویل عرصہ یعنی ایک یا دو ماہ تک پروازیں مسلسل بند رہنے کی وجوہات یا تو کوئی خاص تکنیکی مسئلہ ہوتا ہے، یا پھر طیارے دستیاب نہیں ہوتے یا مکمل طور پر فِٹ نہیں ہوتے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کرایوں کا زیادہ یا کم ہونا بھی پروازوں کی معطلی کا سبب بن سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ کرایوں کا اس میں زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا اور یہ مستقل نہیں ہوتے۔ پروازوں کے کرائے مقامی سطح پر ایئر لائنز آپس میں مسابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کرتی ہیں کہ کسی مخصوص روٹ کے لیے کیا کرایہ رکھا جائے۔ البتہ روانگی کے قریب ٹکٹ لینے پر وہ مہنگا پڑ سکتا ہے، کیونکہ بزنس اور اکانومی کلاس میں متفرق نرخ مقرر ہوتے ہیں۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہر ایئر لائن چھ ماہ بعد سول ایوی ایشن کو اپنا شیڈول پلان دیتی ہے کہ مقامی سطح پر کتنی پروازیں چلانی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر کتنی۔ بعض اوقات جب ایئر لائنز کے پاس طیاروں کی کمی ہوتی ہے تو وہ مقامی پروازوں کے بجائے بین الاقوامی پروازیں چلانے کو ترجیح دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن کے پاس اختیار ہے کہ اگر کوئی ایئر لائن صرف مقامی پروازیں منسوخ کر رہی ہو تو اسے ہدایت کی جائے کہ مقامی اور بین الاقوامی پروازوں میں توازن لائے۔ اور اگر ایئر لائن اس پر عمل نہ کرے تو پھر ایوی ایشن کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ دونوں طرح کی پروازیں معطل کر سکے۔