Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیو آنند: وہ سدا بہار ہیرو جو ’ہر فکر کو دھوئیں میں اُڑاتے چلے گئے‘

دیو آنند نے تین دسمبر 2011 کو انگلینڈ میں اپنی آخری سانسیں لیں (فوٹو: اے ایف پی)
ابھی فواد خان اور صنم سعید کی اداکاری والا معروف پاکستانی سیریل ’زندگی گلزار ہے‘ منظر عام پر نہیں آيا تھا کہ اس سے قبل ہی انڈین سینما کے سدا بہار ہیرو اور ’زندگی گلزار ہے‘ کا جیتا جاگتا نمونہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
ہر سال جب دسمبر کی خنک فضا اپنے رنگ جمانے لگتی ہے تو بالی وڈ کی گلیوں کی رونقوں میں ایک لطیف سا ٹھہراؤ پیدا ہو جاتا ہے، اور کم از کم ہندی سینما کے عہد زریں میں دلچسپی رکھنے والے فلم بین 3 دسمبر کو پل بھر کے لیے سانس روک کر اُس شخص کو یاد کرتے ہیں جس نے کبھی بالی وڈ کو تابانی اور روانی عطا کی تھی۔
آج ہم معروف اداکار دیو آنند کو یاد کر رہے ہیں جنہوں نے 88 سال کی عمر میں تین دسمبر 2011 کو اس دھرتی سے دور سات سمندر پار انگلینڈ میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
وہ شخص جو اس زمین پر ہمیشہ ایک تازہ مسکراہٹ اور سبک خرام قدموں کے ساتھ چلتا رہا، اسے لوگوں نے بجا طور پر اس وقت ’ایورگرین‘ کہا جب ابھی فلم انڈسٹری میں اس کا مطلب بھی واضح نہیں تھا۔
آزادی کے ابتدائی برسوں میں، جب ہندوستان اپنی نئی شناخت تراش رہا تھا، دیو آنند کے خواب پہلے ہی واضح تھے۔ وہ اداکار بننا چاہتے تھے اور اس بات کا اعتراف انہوں نے اپنی سوانح ’رومانسنگ ود لائف‘ میں بھی کیا ہے جبکہ فلم ساز و اداکار گُرو دت کے ساتھ یادگار پہلی ملاقات میں ان دونوں نے جو عہد و پیمان کیے تھے اس سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے۔
دیو آنند اور گرو دت کی دوستی کی کہانی ایک شرٹ سے شروع ہوتی ہے جسے دیوآنند نے ایک ڈرائی کلینر کے ہاں دھلنے کے لیے دیا ہوا تھا جہاں سے گرودت نے اسے اڑا لیا کیونکہ اس دن اُن کے پاس کوئی صاف شرٹ پہننے کو نہیں تھی اور انہیں ایک آڈیشن کے لیے جانا تھا۔

دیو آنند 1940 کی دہائی کے وسط میں لاہور سے بمبئی پہنچے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

اتفاق سے اسی دن دونوں کی ملاقات پربھات سٹوڈیو میں ہوئی جہاں دیوآنند نے اپنی شرٹ پہچان لی اور ان سے پوچھا کہ یہ شرٹ تو بہت اچھی ہے کہاں سے لی جس پر گرودت نے اپنے معصومانہ انداز میں کہا کہ ’کسی کو بتانا نہیں چرائی ہے۔‘
ان کی اس سادگی اور سچ پر دیوآنند متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ دونوں سٹارز کے جدوجہد کے دن تھے اس لیے دونوں نے ایک دوسرے سے وعدے کیے، دیو آنند نے کہا کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ اپنی فلم کی ہدایتکاری گرو دت سے کروائیں گے جبکہ گرو دت نے کہا کہ انہیں موقع ملا تو وہ دیو آنند کو اپنی پہلی فلم میں بطور ہیرو کاسٹ کریں گے۔
دیو آنند نے جب اپنی فلم کمپنی ’نوکیتن‘ شروع کی تو انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا لیکن گرو دت اپنا وعدہ نہ نبھا سکے۔
’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گيا‘
وہ 1940 کی دہائی کے وسط میں لاہور سے بمبئی پہنچے۔ ان کے بڑے بھائی چیتن آنند پہلے ہی بمبئی پہنچ چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کرنے والوں کے اپنے ہی جلوے ہوتے ہیں، لیکن دیو آنند کے دل میں تو کچھ اور ہی تھا۔ جیب میں چند سکے، دل میں بے کنار آرزو اور چہرے پر ایک ناقابلِ فراموش اعتماد کے ساتھ وہ بمبئی پہنچے تاکہ شہرت کی دیوی ایک دن ان پر مہربان ہو جائے۔

دیو آنند اور ثریا کے درمیان محبت پروان چڑھتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دیے گئے ناموں سے پکارنے لگے (فوٹو: کوئی موئی)

کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر بمبئی ٹاکیز کے گرد اس امید میں چکر کاٹتے رہتے کہ شاید قسمت کہیں اُن پر بھی مہربان ہو جائے۔ اور ایک دن ایسا ہی ہوا جب اس وقت کے سٹار اشوک کمار نے اُن کے طرزِ گفتگو اور بھرپور اعتماد کو دیکھ کر فلم ’ضدّی‘ (1948) کے لیے ان کا نام تجویز کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے آنے والی نسلوں کی سینما بینی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ لیکن ضدی سے پہلے ان کی کئی فلمیں آ چکی تھیں۔ جن میں ’ہم ایک ہیں‘، ’موہن‘، ’آگے بڑھو‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اسی سال ان کی فلم ’ودیا‘ بھی آئی تھی جس میں ان کے ساتھ اداکارہ اور گلوکارہ ثریا تھیں جہاں ثریا سے دیو کو اور دیو سے ثریا کو محبت ہو گئی۔ ان دونوں کی محبت پروان چڑھتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دیے گئے ناموں سے پکارنے لگے۔
دیو آنند نے ثریا کا عرفی نام ’نوزی‘ رکھا تھا، جب کہ ثریا کے لیے دیو آنند ’سٹیو‘ تھے۔ یہ نام ثریا نے ایک کتاب کے کردار پر انہیں دیا تھا جو کتاب انہیں دیو آنند نے دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ثریا دیو آنند کو ’ڈیوینا‘ بھی کہا  کرتی تھیں جبکہ دیو انہیں اطالوی لہجے میں نقل کرتے ہوئے ’ثریائينہ‘ کہا کرتے تھے۔
فلم جیت (1949) کی شوٹنگ کے دوران آنند اور ثریا دونوں نے شادی اور فرار کا منصوبہ بنایا لیکن ثریا کی نانی اور ماموں کی مخالفت کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئے تھے۔

محبت میں ناکام ہونے کے بعد دیو آنند نے کلپنا کارتک سے شادی کر لی (فوٹو: فلم فیئر)

بعد میں ’سٹار اینڈ سٹائل‘ کے ایک انٹرویو میں ثریا نے کہا کہ وہ اس وقت دیو آنند کے ساتھ شادی سے پیچھے ہٹ گئیں جب ان کی نانی اور ان کے ماموں نے دیو آنند کو قتل کرا دینے کی دھمکی دے ڈالی۔
دیو آنند نے اپنی سوانح میں ثریا کو اپنی ’پہلی حقیقی محبت‘ کے طور پر یاد کیا ہے۔ محبت میں ناکام ہونے کے بعد دیو آنند نے کلپنا کارتک سے شادی کر لی جو کہ اپنے کالج کے زمانے میں شملہ کی بیوٹی کوئن تھیں، جبکہ ثریا تا عمر غیر شادی شدہ رہیں۔ دیو اور کلپنا کی شادی فلم ’ٹیکسی ڈرائیور‘ کی فلم بندی کے دوران ہوئی۔ اس فلم میں کلپنا کارتک اور دیوآنند اہم کردار میں ہیں۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائیاں دیو آنند کی اداکاری کے شباب کی دہائیاں تھیں۔ اُن کے انداز میں ایک خاص سی ترنگ اور تازگی تھی۔ چاہے وہ ’ٹیکسی ڈرائیور‘ کے روپ میں شہر کی سڑکوں پر گیت گنگناتے نظر آئیں، یا ’ہم دونوں‘ میں جنگلوں میں محبت کے ترانے چھیڑیں یا پھر ’گائیڈ‘ میں محبت، روحانیت اور تلاشِ ذات کے سفر پر نکلیں۔ ان کا ہر کردار گویا ہندوستانی سینما کی دھڑکن بن کر ابھرتا تھا اور وہ بمبئی کا بابو بن کر ابھرے۔
اگرچہ دیوآنند کو ان کا پہلا پیار نہیں ملا لیکن انہوں نے شادی کی اور پھر 70 کی دہائی میں وہ ایک شوخ حسینہ زینت امان پر اپنا دل ہار بیٹھے۔
فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ میں دیو آنند نے اداکارہ زینت امان کو لانچ کیا۔ اس کی ریلیز کے بعد وہ بہت سے لوگوں کے دل کی دھڑکن بن گئیں۔
وہ ابھی 20 سال کی تھیں اور امریکہ کے شہر کیلیفورنیا سے تازہ تازہ آئی تھیں اور اچھی پڑھی لکھی بھی تھیں۔ دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اداکارہ زینت امان نے کھلے عام سنجے خان کے ساتھ اپنے رشتے کا اعتراف کیا لیکن دیو آنند کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن ان کے چاہنے والوں میں دیو آنند بھی شامل تھے کیونکہ انہوں نے خود ہی اس کا اعتراف کیا ہے۔

زینت امان نے ایک پوسٹ میں اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ دیو آنند کو کسی قسم کی غلط فہمی ہو گئی تھی (فوٹو: فلم فیئر)

دیو آنند کی عمر 47 سال تھی جب انہوں نے 20 سالہ زینت کے ساتھ فلم کی تھی۔ اس وقت تک زینت امان نے فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کے لیے ہامی بھر لی تھی۔ لیکن یہ فلم بعد میں 1978 میں ریلیز ہوئی۔
دیو آنند اپنی محبت کا اظہار ایک رومانوی سیٹ اپ میں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کا سارا منصوبہ اس وقت درہم برہم ہو گیا جب انہوں نے زینت کو ایک تقریب میں راج کپور سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا، جس میں وہ بھی شریک تھے۔
اپنی سوانح عمری میں ’رومانسنگ ود لائف‘ (جو 2007 میں منظر عام پر آئی) میں دیو آنند نے لکھا کہ ’اچانک، ایک دن میں نے محسوس کیا کہ میں زینت کے ساتھ بے حد محبت کر رہا ہوں۔ اور اس سے کہنا چاہتا تھا! ایک ایماندارانہ اعتراف کرنا چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ انہیں ایک خاص قسم کا انس ہو گیا ہے۔ بہت ہی خاص۔ میں نے اس شہر کا انتخاب کیا، جہاں ہم نے پہلے ایک ساتھ مل کر کھانا کھایا تھا۔‘
لیکن فلم ’عشق عشق عشق‘ کی پارٹی میں راج کپور نے سب سے کے سامنے زینت کا بوسہ لیا جس نے دیو آنند کا دل توڑ دیا اور انہوں نے اظہار محبت کا فیصلہ ترک کر دیا۔
بہر حال بہت بعد میں زینت امان نے ایک پوسٹ میں اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ دیو آنند کو کسی قسم کی غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ان کا راج کپور کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ہے اور یہ کہ پھر اتنے سال بعد اپنے جذبات کو منظر عام پر لا کر انہوں نے انہیں تکلیف پہنچائی ہے۔

زمانہ بدلتا گیا، لیکن دیو آنند کا جوش کبھی کم نہ ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

بہر حال لوگ دیو آنند کو ان کے رشتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی فلموں اور ان کی اداؤں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ کیسے وہ اکثر جوہو یا پالی ہل میں اپنے مخصوص انداز میں آتے جاتے دکھائی دیتے تھے۔ لمبا سکارف، ماتھے پر ڈھلکی ہوئی لٹ، اور چہرے پر وہی ناقابلِ بدل کشش۔ وہ چلتے بھی ایسے تھے جیسے زندگی نے انہیں کہیں ٹھہرجانے کی اجازت ہی نہ دی ہو۔
زمانہ بدلتا گیا، لیکن دیو آنند کا جوش کبھی کم نہ ہوا۔ انہوں نے نوکیتن کے بینر تلے نئی صلاحیتوں کو موقع دیا، اور فلم سازی میں مسلسل مصروف رہے، بالکل اُس ذہن اور دل کے ساتھ جو ہمیشہ ان میں جوان رہا۔ ان کی خودنوشت ان کی شخصیت کا آئینہ تھی۔
یہ بھی کتنا معنی خیز ہے کہ 3 دسمبر 2011 کو لندن میں جب اُن کا سفر رُکا، وہ اُس وقت بھی اپنی نئی فلم کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ زندگی سے اُن کا عشق آخری سانس تک برقرار رہا اور ان کے لیے زندگی واقعی گلزار رہی۔
دیو آنند نے 100 سے زیادہ فلموں میں اپنے جلوے بکھیرے جن میں، کالا پانی، ٹیکسی ڈرائیور، تیرے گھر کے سامنے، پریم پجاری، پیئنگ گیسٹ، جانی میرا نام، گائیڈ، سی آئی ڈی، اصلی نقلی، بمبئی کا بابو، بازی وغیرہ یادگار ہیں۔

 

شیئر: