Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پوتن کا پُرتپاک استقبال اور امریکہ سے تجارتی معاہدہ، کیا انڈیا کی ’دوہری‘ حکمت عملی کامیاب ہوگی؟

آج جمعرات کو جب روسی صدر ولادیمیر پوتن کا طیارہ نئی دہلی میں لینڈ کرے گا تو ان کا پُرتپاک استقبال کیا جائے گا بالکل ویسے ہی جیسے انڈیا اپنے قریبی دوست ممالک کے رہنماؤں کا کرتا ہے۔
لیکن ان کے میزبان وزیراعظم نریندر مودی بیک وقت ایک عالمی حریف یعنی امریکہ کے ساتھ  اچھے سٹریٹجک تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یہ انڈیا کی ’دوہری‘ سفارتی حکمتِ عملی ہے۔ ایک طرف روس کے ساتھ پُرانی دوستی، سستا تیل اور ممکنہ فوجی سامان کی خریداری تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ ٹیکنالوجی، تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون اور یہ اُمید کہ صدر ٹرمپ سزا کے طور پر عائد کیے گئے اپنے ٹیرف ختم کر دیں گے۔
یوکرین پر حملے کے بعد، انڈیا اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ دونوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
نئی دہلی کی سڑکوں پر روسی اور انڈین جھنڈوں کی بہار ہے اور بڑے بل بورڈز آویزاں ہیں جن پر صدر پوتن کاخیرمقدم کیا گیا ہے۔
لیکن ولادیمیر پوتن کا یہ دورہ جو کہ جنگ کے آغاز کے بعد انڈیا کا پہلا دورہ ہے، ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نریندر مودی کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔
امریکہ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ ایک انتہائی اہمیت کے حامل تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں روسی تیل کی خریداری کم کی ہے اور امریکہ سے گیس خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔

نئی دہلی کی سڑکوں پر روسی اور انڈین جھنڈوں کی بہار ہے اور بڑے بل بورڈز پر صدر پوتن کاخیرمقدم کیا گیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

روسی صدر کے دورے کے ایجنڈے میں سب سے زیادہ اہمیت ماسکو کے ساتھ مزید دفاعی معاہدوں کو حاصل ہے۔ ان معاہدوں میں ایسے ہتھیاروں کی خریداری شامل ہے جنہیں انڈیا پاکستان اور چین کے خلافاپنے  دفاع کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
پاکستان اور چین کے ساتھ حالیہ برسوں میں انڈیا کی سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انڈیا کے لیے ایسے پیچیدہ ماحول میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے: روس بھی چین کا قریبی شراکت دار ہے، جبکہ بیجنگ پاکستان کے لیے ہتھیاروں کا بڑا ذریعہ ہے۔
کانتی باجپائی جو اشوکا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے وزٹنگ پروفیسر ہیں، سمجھتے ہیں کہ ’پوتن کا شاندار استقبال کرتے ہوئے، نئی دہلی مغرب اور چین دونوں کو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اس کے پاس آپشنز موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انڈیا روسیوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے حالانکہ ماسکو کو عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر مذمت کا سامنا ہے۔‘
کانتی باجپائی نے مزید کہا کہ تیل اور ہتھیاروں کے علاوہ، یہ سفارتی توازن بھی ہے، جس سے بیجنگ اور واشنگٹن کو یہ دکھایا جاتا ہے کہ دہلی کے پاس ایک تیسرا آپشن موجود ہے۔‘

معاہدہ ابھی طے نہیں پایا، انڈیا کو محتاط رہنا ہوگا‘

انڈیا کے نقطہ نظر سے، ایسے اقدامات اس کے دیگر شراکت داروں سے تعلقات کے خاتمے کی علامت نہیں ہیں۔

نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ ایک انتہائی اہمیت کے حامل تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

کانتی باجپائی نے کہا کہ ’نئی دہلی اور ماسکو کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ پوتن جانتے ہیں کہ مودی وہاں کافی دباؤ میں ہیں۔ انہیں اپنے ملک کے ووٹروں کے سامنے جواب دہ ہونا ہے، اور وہ ایک مشکل صورتِ حال میں ہیں۔‘
انڈیا کے آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے تھینک ٹینک کے نندن اننِکریشن نے کہا ہے کہ ’امریکہ کے ساتھ ایک پُرجوش تجارتی معاہدہ رکھنے اور روس کے ساتھ فعال تعلقات رکھنے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔‘
نندن اننِکریشن سمجھتے ہیں کہ ’انڈیا کو اس حد تک محتاط رہنا ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ دو طرفہ تجارتی معاہدہ ابھی طے نہیں پایا ہے۔ ‘

 

شیئر: