’عمر محض ہندسہ‘، تھرپارکر کے سکھ رام داس 79 برس کی عمر میں ’لا گریجویٹ‘
’عمر محض ہندسہ‘، تھرپارکر کے سکھ رام داس 79 برس کی عمر میں ’لا گریجویٹ‘
منگل 9 دسمبر 2025 15:36
پاکستان کے دورافتادہ اور پسماندگی کے شکار خطے میں اگر کوئی خاموش انقلاب برپا ہو رہا ہے تو وہ تعلیم کا انقلاب ہے اور اس انقلاب کی قیادت اکثر وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر وقت کی دھول میں گم شدہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
تھرپارکر کے تپتے صحرا سے اُبھرنے والی ایک ایسی ہی زندہ مثال سکھ رام داس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علم نہ تو کسی کیلنڈر کا محتاج ہے اور نہ ہی کسی شناختی کارڈ پر درج تاریخ پیدائش کا پابند۔
سکھ رام داس جو برسوں تک سرکاری سکول میں بچوں کو روشن مستقبل کے خواب بانٹتے رہے۔ وہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی گزارنے کے بجائے ایک ایسے سفر پر ہیں جو نوجوانوں کے لیے ایک مثال ثابت ہو رہا ہے۔
انہوں نے 74 سال کی عمر میں جامعہ کراچی کے شعبہ قانون میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جس عمر میں اکثر لوگ یادداشت کے سہارے ماضی کو دہراتے ہیں انہوں نے مستقبل کو نیا رنگ دینے کی ٹھان لی۔
سکھ رام داس نے پانچ برس بعد جب 79 برس کی عمر میں قانون کی ڈگری حاصل کی تو انہوں نے اس تصور کو رَد کیا کہ علم حاصل کرنے کا کوئی مخصوص وقت ہوتا ہے۔
یہ کامیابی محض ایک تعلیمی سند نہیں بلکہ ایک فکری بغاوت ہے، ایک ایسا پیغام کہ اگر نیت میں استقامت ہو تو انسان عمر کے بوجھ کو بھی اپنے عزم کے سامنے بے معنی بنا سکتا ہے۔
مقامی سطح پر یہ اقدام ایک غیرمعمولی مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ عموماً اس عمر میں افراد عملی زندگی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، تاہم سکھ رام داس نے روایت سے ہٹ کر علمی میدان میں ایک نئی مثال قائم کی۔ ان کی تعلیمی جدوجہد کو ماہرینِ تعلیم نے عزم، مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کی علامت قرار دیا ہے۔
رام داس ماضی میں بہترین اُستاد کا ایوارڈ بھی وصول کر چکے ہیں۔ فائل فوٹو: وزیراعلٰی ہاؤس سندھ
ان کے صاحبزادے ویشن سکھ رام نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سکھ رام داس کا تعلق تحصیل ڈیپلو کے گاؤں ہیلاریو پیر سے ہے اور وہ آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔‘
ان کے مطابق ان کے والد کی اصل پہچان ان کا خاندانی پس منظر نہیں بلکہ ان کی علمی بصیرت اور سماجی شعور ہے جو برسوں کی تدریس اور معاشرتی مشاہدے سے تشکیل پایا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے والد ہمیشہ اپنے علاقے کے غریب اور کمزور طبقات کے مسائل پر فکرمند رہے، خصوصاً زمینوں کے تنازعات اور بنیادی حقوق سے متعلق معاملات پر ان کی گہری نظر رہی۔‘
سکھ رام داس نے کہا کہ ’قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ذاتی شہرت یا سماجی شناخت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے علاقے کے محروم عوام کے لیے عملی سطح پر قانونی معاونت فراہم کرنا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ برسوں سے ناانصافیوں کو قریب سے دیکھتے رہے، تاہم مناسب قانونی آگاہی نہ ہونے کے باعث مؤثر کردار ادا نہیں کر پاتے تھے، اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے قانون کے شعبے کا انتخاب کیا۔‘
سکھ رام داس کی جدوجہد کو نئی نسل کے لیے ایک خاموش مگر مضبوط پیغام قرار دیا جا رہا ہے۔ تصویر: گلاب رائے
سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ سکھ رام داس کی کامیابی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کے لیے ایک علامتی پیغام ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ عمر تعلیم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
تعلیمی اور سماجی ماہرین کے مطابق یہ عمل اس عمومی تاثر کو مسترد کرتا ہے کہ بڑھاپا کمزوری کا دوسرا نام ہے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق تھرپارکر کے خشک اور سخت حالات میں سامنے آںے والی یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل زرخیزی زمین نہیں بلکہ انسان کے حوصلے اور ارادے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
سکھ رام داس کی جدوجہد کو نئی نسل کے لیے ایک خاموش مگر مضبوط پیغام قرار دیا جا رہا ہے کہ علم کا سفر کسی بھی عمر میں شروع کیا جا سکتا ہے اور سیکھنے کا عمل زندگی کی آخری سانس تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔