پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیراعلٰی مریم نواز کی حکومت کے پہلے ڈیڑھ سال میں شروع کیے جانے والے کئی منصوبوں کو نقاد مختلف زاویوں سے پرکھ رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے چند ایسے بڑے اقدامات کیے ہیں جو کسی حد تک متنازع بھی ہوئے، ان میں سب سے پہلا کام صوبے کے کسانوں سے گندم کی خریداری نہ کرنا تھا۔
مزید پڑھیں
-
سندھ ہاؤس سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے خبروں میں کیوں؟Node ID: 896529
صوبائی حکومت نے ایک واضح پالیسی کے ذریعے صوبے کے کسانوں سے محکمہ خوراک کے ذریعے براہِ راست گندم خریدنا بند کر دی۔
اس فیصلے کی وجہ سے پنجاب کے لاکھوں کسان متاثر ہوئے اور مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 2000 روپے من تک جا پہنچا جو کہ گذشتہ برسوں کے دوران پانچ ہزار روپے فی من تک تھا۔
البتہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ایسا نظام لا رہی ہے جس سے نہ صرف کسانوں کا فائدہ ہو گا بلکہ حکومت پر بھی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا، لیکن تاحال ایسا کوئی نظام اپنی مکمل حالت میں موجود نہیں ہے۔
دوسرے نمبر پر ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت صوبے میں تجاوزات کے خلاف سب سے بڑی مہم شروع کی گئی جس کی مثال پہلے دستیاب نہیں اور تاحال جاری ہے۔
حکومت کا یہ ایسا اقدام ہے کہ جسے ناقدین مستقبل میں گراس رُوٹ لیول پر مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں کمی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
تجاوزات کے خلاف یہ مہم بڑے شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ چھوٹے چھوٹے دیہات تک بھی پہنچی جہاں لوگوں نے اس بات کی بھی شکایت کی ان کی پراپرٹیز کو مقامی سیاست کی وجہ سے گرایا گیا۔
لاہور جیسے بڑے شہروں میں انار کلی، اچھرہ، شاہ عالمی اور کریم بلاک جیسی مارکیٹوں سے ہزاروں ریڑھی بانوں کا خاتمہ کیا گیا اور تجاوزات کے مستقل خاتمے کے لیے ’پیرا‘ جیسی ایک فورس بھی تشکیل دی گئی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ بازاروں کو صاف کر کے حکومت نے متاثرین کو خوب صورت ٹھیلے اور مخصوص مقام دیے ہیں، تاہم اس مہم سے بھی لاکھوں افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔

اندرون لاہور ان دنوں ایک بڑی مہم جاری ہے جس کے ذریعے اکبری منڈی، موچی گیٹ، لوہاری گیٹ اور بھاٹی گیٹ کے علاقوں میں سینکڑوں تاجروں کو بتا دیا گیا ہے کہ اندرون شہر کی اصل حالت میں بحالی کے لیے انہیں دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ سرکاری جگہ واگزار کروا رہی ہے۔ تام اس سے بھی ہزاروں افراد متاثر ہوں گے اور اندرون لاہور جو کبھی مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں اب اس کے بارے میں گراس رُوٹ لیول پر تاثرات بدلے بدلے دکھائی دیتے ہیں۔
پنجاب میں ان دنوں بڑے پیمانے پر پولیس مقابلوں نے بھی اب تھوڑی مختلف صورت حال اختیار کر لی ہے۔ خاص طور پر طیفی بٹ کے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد اندرون لاہور خاص طور پر اکبری منڈی کے تاجروں میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔
مبینہ پولیس مقابلے کے اس نئے کلچر نے انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلا اور سول سوسائٹی کو بھی حکومت پر انگلی اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔
انہی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کو اندازہ نہیں ہے کہ گراسٹ رُوٹ لیول پر کیا صورت حال ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حمزہ شہباز پارٹی کی نچلی سطح کی سیاست کو بہت قریب سے سمجھتے ہیں۔ مریم کے اندازِ حکمرانی سے سیاسی نقصان ہو گا۔‘
ان غیر معمولی اقدامات پر پنجاب کی وزیرِ اطلاعات اعظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ مریم نواز اور حمزہ شہباز کا نام لے کر جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی تنازع ہوا ہے تو ایسے لوگوں کے خلاف ہم عدالت جا رہے ہیں ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کے ہر منصوبے میں شفافیت ہے یہاں کے کلرکوں سے اربوں روپے نہیں نکلتے۔ ستھرا پنجاب نے پنجاب بدل دیا ہے۔ الیکٹرک بسیں ہوں یا کسان کارڈ اور اپنی چھت سکیم کوئی ایک چیز بتائیں جہاں عوام کی فلاح کے منصوبے شروع نہ ہوئے ہوں؟‘
اعظمیٰ بخاری کے مطابق ’صرف تنقید کرنا ہو تو وہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اصل تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ پہلے سے موجود نظام میں اس حد تک بہتری لائی جائے کہ لوگوں کو سرِعام نظر آئے۔‘
مسلم لیگ ن کی سیاست کو کئی دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’مریم نواز کے طرز حکمرانی کے دو پہلو ہیں۔‘

’ایک پہلو جو سب سے نمایاں ہے وہ ان کی اپنی حکومت کی کارکردگی ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھاگ دوڑ کر رہی ہیں اور ایسا تاثر قائم کرنا چاہتی ہیں کہ انہیں یاد رکھا جائے۔‘
ان کے مطابق ’دوسرا پہلو اس سے زیادہ اہم ہے وہ ہے کہ کیا مریم نواز کے طرز حکمرانی سے مسلم لیگ ن پنجاب میں مضبوط ہوئی ہے؟ تو میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘
سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر صرف کسانوں کی مثال لی جائے تو ان دو برسوں کے دوران گندم کی قیمت کی وجہ سے کسانوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ تو کیا پنجاب کا کسان خوش ہے؟ میرا نہیں خیال۔‘
’کیا ن لیگ کا ورکر خوش ہے؟ میرا نہیں خیال۔ اسی طرح جب نواز شریف کہتے تھے کہ ان کے والد میاں شریف نے کہا تھا کہ اگر حکومت کرنی ہے تو کچن کی چیزیں مہنگی نہ ہونے دینا۔ تو آج وہ مہنگی نہیں بہت مہنگی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کی حکومت اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت اب یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ مقبولیت کا گراف اوپر نہیں آسکا اور سنجیدہ حلقوں میں اس پر بات بھی ہو رہی ہے کہ کچھ حکومتی اقدامات سے وہ گراف نیچے گیا ہے۔‘













