برصغیر ہندو پاک میں اگر گلوکاروں کے علاوہ کوئی ایک سب سے مانوس آواز ہے تو وہ امین سایانی کی آواز ہے جنہوں نے تین نسلوں کو اپنی آواز سے مسحور کیا۔
شاید ان پر ہی یہ فقرہ ’میری آواز ہی پہچان ہے‘ سب سے زیادہ مناسب اور حسب حال نظر آتا ہے۔ چنانچہ دسمبر کی ٹھنڈی ہوا میں اگر ریڈیو کی کوئی یاد سب سے زیادہ گرمجوشی سے دل کو چھوتی ہے تو وہ شاید امین سایانی کی آواز ہے۔
21 دسمبر 1932 کو پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر محض ایک اناؤنسر نہیں بنا بلکہ اس کے ساتھ تین نسلوں کی مشترکہ یاد شامل ہے۔ امین سایانی ایک ایسا نام ہے جس کے ساتھ بالی وُڈ اور ریڈیو دونوں ایک ساتھ سانس لیتے تھے۔
مزید پڑھیں
-
’بلبلِ ہند‘ لتا منگیشکر کو زہر دینے والا کون تھا؟Node ID: 770926
-
کے ایل سہگل، جن سے لتا منگیشکر ’شادی کرنا چاہتی تھیں‘Node ID: 884581
-
گیتا دت اور گرو دت کا عشق، جو ناکام ہو کر بھی کامیاب رہاNode ID: 897495
وہ گجراتی خوجہ خاندان میں بمبئی (اب ممبئی) میں پیدا ہوئے اور ان کی وہیں تعلیم و تربیت ہوئی۔ ان کی والدہ کلثوم ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں پیش پیش تھیں اور مہاتما گاندھی کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ آج ہم ان کی یوم ولادت کے موقعے سے انہیں یاد کر رہے ہیں۔
1950 کی دہائی کے آغاز میں ہفتہ وار فلمی گیتوں کے پروگرام سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے امین سایانی نے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ہندوستانی ریڈیو پر حکومت کی۔ ان کی آواز میں ایک اپنائیت، ایک خلوص تھا، جیسے کوئی مخلص دوست ریڈیو کے اُس پار بیٹھا ہر سننے والے سے الگ الگ مخاطب ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا حلقۂ احباب کسی ایک نسل تک محدود نہ رہا، بلکہ دادا، باپ اور پوتا سب ایک ہی وقت میں ان کی بات سنتے تھے۔
جب وہ اپنے مخصوص انداز میں ’بہنو اور بھائیو‘ کہتے تو کوئی بھی ان کے مخصوص انداز اور لہجے سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
ہندوستان میں انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا سامان فلمیں تھیں اور اس میں شامل گیت لوگوں اس قدر متاثر کرتے تھے کہ وہ اپنے کمروں، باتھ رومز میں ہی نہیں بلکہ گلیوں محلوں اور کھلی سڑکوں، باغوں کھیتوں میں ہر جگہ انہیں گاتے تھے۔
ابھی حال ہی میں انڈیا کے معروف سکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے کہا کہ ہر جگہ گانے کا کلچر صرف برصغیر میں نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کو امین سایانی مواد فراہم کرتے تھے۔
انہوں نے مصنوعات کے اشتہار کے طور پر مبنی گیتوں کے کئی پروگرامز پیش کیے جس میں ان کا سب سے مشہور پروگرام ’بناکا گیت مالا‘ تھا جو بعد میں سیباکا گیت مالا بن گیا۔ بناکا اور سیباکا اپنے زمانے کے مقبول ٹوتھ پیسٹ تھے۔
یہ پروگرام 42 برس تک نشر ہوتا رہا، یہ محض ایک پروگرام نہیں تھا بلکہ ایک عہد تھا۔ اس نے نغمہ نگاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کو گھر گھر پہچان دی، اور کئی فلموں کو گمنامی سے نکال کر زندگی بخشی۔ اس زمانے میں جب ریڈیو انٹرٹنینمٹ کا سب سے بڑا وسیلہ تھا امین سایانی اس کے بادشاہ تھے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جب 1951 میں وہ بمبئی آل انڈیا ریڈیو میں نوکری کے لیے گئے تھے تو اپنے انگریزی اور گجراتی لہجے کی وجہ سے انہیں مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے لہجے پر محنت کی اور پھر باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔
اپنے طویل کیریئر میں انہوں نے کم از کم پچاس ہزار ریڈیو پروگرام ریکارڈ کیے، 19 ہزار اشتہاری جِنگلز کو آواز دی، ٹی وی شوز کی میزبانی کی اور فلموں میں بھی اکثر ریڈیو پریزینٹر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ ہندوستانی ریڈیو کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ایک ہی نام نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور وہ امین سایانی کی آواز ہے جو ایک ایسی آواز ہے جو انہیں ودیت ہوئی ہو۔
1952 کی سردیوں میں جب آل انڈیا ریڈیو سے فلمی گیتوں پر پابندی لگائی گئی اور کلاسیکی موسیقی کو جگہ دی گئی، تو ریڈیو سیلون نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین دسمبر 1952 کو، نوجوان 20 سالہ امین سایانی کو موقع دیا جن کی شوخ مگر شائستہ صدا کے ساتھ، بناکا گیت مالا پہلی بار ہوا کے دوش پر سری لنکا سمیت پورے بر صغیر میں گونجا۔ ان الفاظ کے ساتھ ریڈیو کا نشریہ شروع ہوا:
’بہنو اور بھائیو، آپ کی خدمت میں امین سایانی کا آداب۔‘

یہ محض ایک سلام نہیں تھا بلکہ گنگا جمنی تہذیب کا اعلان تھا۔ بہنوں کو پہلے پکارنا، ہندستانی زبان کی مٹھاس، اور فلمی دھن کی چنچل لے یہ سب مل کر پروگرام کو فوری طور پر مقبول بنا گئے۔ اس ایک جملے میں صنفی حساسیت بھی تھی اور گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو بھی۔
ممبئی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہونے والے امین سایانی کی والدہ کلثوم پٹیل ہندو تھیں اور والد ڈاکٹر جان محمد سایانی مسلمان۔ دونوں تحریکِ آزادی سے وابستہ رہے۔ اردو اور ہندی کے سنگم پر ان کی گرفت، ماں کے جریدے ’رہبر‘ کی ادارت میں برسوں ہاتھ بٹانے کا نتیجہ تھی۔ مہاتما گاندھی کا یہ جملہ کہ ہندی اور اردو کو جوڑنے کا یہ مشن کامیاب ہو، امین سایانی کی زندگی کی روح بن گیا۔
بناکا گیت مالا کا انداز سادہ مگر اثرانگیز تھا۔ سامعین کی فرمائشوں اور ریکارڈ کی فروخت کی بنیاد پر سولہ فلمی گیت مقبولیت کے اعتبار سے سنائے جاتے۔ ہر گیت سے پہلے شاعر، موسیقار اور گلوکار کا ذکر، ان کی جدوجہد کا کوئی چھوٹا سا قصہ بھی ہوتا اور یوں فلمی نغمے محض تفریح نہیں بلکہ ایک زندہ فن اور معلومات کا خزانہ بن گئے۔
وہ ایک ماہر مارکیٹر بھی تھے۔ پروگرام کے دوران ’مجھے بناکا ٹاپ والی مسکراہٹ دیجیے‘ کہتے ہوئے وہ اشتہار کو بھی رشتے میں بدل دیتے۔ بدھ کی رات آٹھ بجے، گھروں میں باورچی خانے سے لے کر برآمدے تک سب ایک ہی آواز کے گرد جمع ہوتے۔ کوئی نوٹ بک میں گیتوں کی ترتیب لکھتا، کوئی محض دل میں محفوظ کر لیتا۔
لال گنج، مجنوں کا ٹیلہ اور جھمری تلیا جیسے غیر معروف قصبے کو ملک بھر میں مشہور کرنا بھی انہی کا کمال تھا۔ وہاں سے آنے والے خطوط، فرمائشیں، اور ان کا خوش آہنگ انداز میں نام لینا، ایک قصبے کو داستانی رنگ دیتا گیا۔ ریڈیو کلب وجود میں آئے، روزانہ ہزاروں خطوط آنے لگے، اور بناکا گیت مالا ایک عوامی تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔
امین سایانی کے انداز میں شگفتگی اور شائستگی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لفظوں سے کھیل بھی تھا مگر سب ادب کی حد میں۔ ان کی آواز دل سے نکلتی تھی، اس لیے دل تک پہنچتی تھی۔













