Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیتا دت اور گرو دت کا عشق، جو ناکام ہو کر بھی کامیاب رہا

گیتا دت 23 نومبر 1930 کو مشرقی بنگال کے مداری پور ضلع میں پیدا ہوئیں۔ (فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز)
گیتا دت جیسی آواز کسی دوسری گلوکارہ کی نہیں تھی: مدھر، چاشنی سے بھرپور، اور ایسی شیرینی لیے ہوئے تھی جو جذبات برانگیختہ نہیں کرتی بلکہ محبت، تحسین، حیرت اور ایک گہری تڑپ کو بیدار کرتی ہے۔
اس آواز میں مگر ایک اُداسی بھی تھی، وہی اداسی جو ملکہ جذبات مینا کماری کے حصے میں آئی تھی۔ دونوں کی زیست میں صرف یہ ایک مماثلت ہی نہیں تھی بلکہ ان دونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں کے دل ٹوٹے اور دونوں کو بے وقت موت نے آ لیا۔
گیتا دت کا یہ اُداس کر دینے والا تعارف کروانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ وہ آج ہی کے روز 23 نومبر 1930 کو مشرقی بنگال کے مداری پور ضلع میں پیدا ہوئیں جو اب بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ ڈویژن کا حصہ ہے۔
بہت سے لوگ گیتا دت کو گلوکارہ کی حیثیت سے زیادہ ایک ایسے کردار کے طور پر جانتے ہیں جو بے مثل ہدایت کار گرو دت کی اداکارہ وحیدہ رحمان سے یکطرفہ محبت کی کہانی میں ایک اہم کردار تھیں، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کی ان گلوکاراؤں میں سے ایک تھیں جن سے آشا بھوسلے متاثر ہوئیں، اور تو اور سُروں کی دیوی لتا جی کے لیے بھی اُن کو نظرانداز کرنا آسان نہیں تھا۔
لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جب لتاجی نے گائیکی شروع کی تو پچھلی نسل کی تمام گلوکارائیں پس منظر میں چلی گئیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ گیتا دت نے لیجنڈ موسیقار ایس ڈی برمن کو فون کرکے پوچھا تھا کہ انہوں نے آخر ایسی کیا غلطی کی ہے کہ انہوں نے اُن کی آواز استعمال کرنا چھوڑ دی ہے؟ لتا جی نے مگر کبھی ایسا محسوس نہیں کیا۔
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق لتا جی نے گیتا دت سے اپنی دوستی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب بھی ہماری ملاقات ہوتی، ہم سکول کی دو لڑکیوں کی طرح گپ شپ کرنے لگتیں۔‘
انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ’عام تاثر سے ہٹ کر ان کی اور گیتا دت کی بہت اچھی دوستی تھی۔ صرف دوستی ہی نہیں، بہت قریبی دوستی۔ کیا میں آپ کو کچھ بتاؤں؟ یہ محض ایک وہم ہے کہ دوسری گلوکاراؤں کی میرے ساتھ بن نہیں پاتی تھی۔ میرا گیتا دت کے ساتھ بہترین تعلق تھا۔ وہ اپنے سارے راز مجھ سے شیئر کیا کرتی تھی۔ گیتا سے پہلے میں امیربائی کرناٹکی کی بے حد مداح تھی۔ ہمارے درمیان رقابت کی جو باتیں مشہور تھیں، وہ محض چٹ پٹی کہانیاں تھیں۔ اُن کا گانے کا انداز مجھ سے بالکل مختلف تھا۔‘
لتا جی نے گیتا دت کے فنِ گائیکی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اُس کی گائیکی کی مداح تھیں۔ اُس کی آواز منفرد اور دل میں اُتر جانے والی تھی۔ اُس نے جس طرح ’وقت نے کیا کیا حسین ستم‘ گایا، کوئی اور نہیں گا سکتا تھا۔ دراصل میں نے اپنی البم ’شرادھانجلی‘میں یہ گیت گا کر گیتا کو خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ دکھانا نہیں تھا کہ میں یہ گانا اُس سے بہتر گا سکتی ہوں۔ جیسے کہ میں نے کہا، وہ جس طرح گاتی تھی، اس طرح گانا کسی اور کے لیے ممکن نہیں تھا۔‘
حقیقت میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ لتا جی نے اس البم میں ان سب گلوکاروں کے گیت گائے جو اس وقت تک وفات پا چکے تھے اور وہ گیت منتخب کیے جو اُن کے پسندیدہ تھے۔
گیتا دت کا اصل نام گیتا گھوش رائے چوہدری تھا۔ وہ ایک خوش حال زمیندار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کا خاندان مشرقی بنگال سے کلکتہ، پھر آسام اور بالآخر 1940 کی دہائی کے اوائل میں بمبئی منتقل ہو گیا۔
بمبئی میں قیام کے دوران ہی گیتا کی مدھر آواز نے موسیقار کے ہنومان پرساد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی، جنہوں نے کم عمر گیتا کو گانے کی تکنیک نکھارنے کے لیے موسیقی کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا اور یوں ان کے فنی سفر کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس زمانے میں بہت سی فلموں کے لیے گیت گائے جن میں سنہ 1946 میں ریلیز ہوئی فلم ’بیرم خان‘ کا گیت ’اب چاند جواں ہو گا‘ بھی شامل ہے جس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے، جنہوں نے لتا جی، نورجہاں اور سریندر کور کو متعارف کروایا۔
گیتا دت کو بڑا بریک تھرو سنہ 1947 میں ریلیز ہوئی فلم ’دو بھائی‘ سے ملا، جس کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے۔ اس فلم کے گیت جیسے’میرا سندر سپنا بیت گیا‘، ’یاد کرو گے یاد کرو گے‘ اور ’ہمیں چھوڑ پیا کس دیس گئے‘ نے انہیں بالی وڈ کی نمایاں ترین پلے بیک گلوکاراؤں کی فہرست میں شامل کر دیا۔
بعد ازاں گیتا دت نے متعدد مقبول گیت گائے، جن میں ’وطن کی مٹی ہاتھ میں لے کر ماتھے تلک لگا لو‘ (گاؤں، 1947)، ’آ جا بیدردی بالما‘ (شہید، 1948)، ’یہ کیسی دِل لگی ہے‘ (امر کہانی)، ’کیوں کرتا مان جوانی کا‘ (ناچ، 1949)، ’قسمت میں بچھڑنا تھا‘ (شبنم، 1949)، ’خیالوں میں کسی کے اس طرح آیا نہیں کرتے‘ (بانورے نین، 1950) اور بے شمار دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں ہی گیتا دت نے دلیپ کمار اور نرگس کی فلم ’جوگن‘ کے گیت گائے جو انڈین سنیما کے سنہری عہد کے نمائندہ ہیں۔

گرو دت اور گیتا دت مئی 1953 میں شادی کے بندھن میں بندھے۔ (فوٹو: بالی وڈ شادیز)

گیتا دت کے کیریئر اور زندگی نے اُس وقت نیا رُخ لیا جب انہوں نے اپنے مستقبل کے شوہر گورو دت کے ساتھ پہلی بار سنہ 1951 میں ریلیز ہوئی فلم ’بازی‘ میں کام کیا۔ انہوں نے اس فلم میں ’آج کی رات پیا دِل نہ توڑو‘، ’دیکھ کے اکیلی موہے برکھا ستائے‘ اور ’’تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے‘ جیسے سدا بہار گیت گائے۔
گرو دت کی ہدایت کاری میں بننے والی ہر فلم میں گیتا دت نے سُروں کا ایسا جادو جگایا کہ آج بھی ان کے گائے گیت سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سنہ 1954 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آر پار‘ ہے جس میں انہوں نے ’جا جا جا جا بے وفا‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘، ’یہ لو میں ہاری پیا‘ اور ’سن سن سن سن ظالما‘ گائے اور یہ سب گیت اَمر ہو گئے۔
گرو دت کی ایک اور فلم ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ کا شوخ و چنچل گیت ’جانے کہاں میرا جگر گیا جی‘ آج برسوں گزر جانے کے باوجود بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ انہوں نے سنہ 1965 میں ریلیز ہوئی فلم ’سی آئی ڈی‘ کے لیے ’یہ ہے بمبئی میری جان‘، ’جاتا کہاں ہے دیوانے‘ اور ’آنکھوں ہی آنکھوں میں‘ گائے۔
سنہ 1957 میں ریلیز ہوئی فلم ’پیاسا‘ گرو دت کی یادگار ترین فلموں میں سے ایک ہے جسے آج بھی ہندی سینما کی تاریخ کی عظیم ترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گیتا دت نے اس فلم کے لیے گیت ’آج ساجن موہے انگ لگا لو‘، ’ہم آپ کی آنکھوں میں‘ اور ’جانے کیا تُو نے کہی‘ گائے۔
سنہ 1959 میں ریلیز ہوئی فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں اُن کا درد بھرا لازوال گیت ’وقت نے کیا کیا حسین ستم‘ شامل ہے، جبکہ سنہ 1960 میں فلم ’چودھویں کا چاند‘ کے لیے گیت ’بالَم سے ملن ہو گا‘ اور ’شرمانے کے دن آئے‘ گائے۔

گرو دت، گیتا دت اور وحیدہ رحمان کے ساتھ۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس آرکائیو)

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گیتا دت کی منفرد آواز، جو جذبات کی مکمل وسعت کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتی تھی، کے باعث وہ موسیقاروں اور عوام دونوں میں یکساں طور پر مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ المیے سے بھرپور نغموں سے لے کر شوخ و چنچل گیتوں تک، گیتا دت نے یہ ثابت کیا کہ وہ ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت رکھتی ہیں۔
ہیمنت کمار کی موسیقی اور شکیل بدایونی کی شاعری سے آراستہ فلم ’صاحب، بیوی اور غلام‘ میں بھی انہوں نے اپنے سُروں کا جادو جگایا اور یہ صرف گیت نہیں بلکہ فلم کے ماحول اور کہانی کا بنیادی حصہ ہیں، جو کرداروں کی اندرونی کشمکش کو سامنے لاتے ہیں۔
فلم کی کہانی میں بھی انڈین سینما کی دو عظیم ترین فنکاراؤں گیتا دت اور مینا کماری کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے، جو اس فلم میں اپنے فن کی معراج پر نظر آتی ہیں۔
انہوں نے صرف گرو دت کی فلموں یا کچھ مخصوص موسیقاروں کے لیے ہی گیت نہیں گائے۔ ہیمنت کمار، مدن موہن، ایس ڈی برمن، سی رام چندر سمیت اس عہد کا ہر بڑا موسیقار ان کے فن کا مداح تھا۔
ہندی فلمی موسیقی میں انقلاب برپا کرنے والے موسیقار لاہور کے او پی نیر گیتا دت کی آواز کے بہت بڑے مداح تھے اور ہمیشہ انہیں سب سے بڑھ کر مقام دیتے تھے اور اس کی وجہ بھی تھی کہ ان کو بریک تھرو دلانے میں اہم ترین کردار گیتا دت کا ہی تو تھا۔
او پی نیر اور گیتا دت کا ساتھ سنہ 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آسمان‘ سے شروع ہوا، جس میں گیتا دت نے چار سولو گیت گائے۔ یہ تعلق چھ برس بعد سنہ 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’راگنی‘ پر ختم ہوا۔

گیتا دت کے کیریئر اور زندگی نے اُس وقت نیا رُخ لیا جب انہوں نے گورو دت کے ساتھ پہلی بار 1951 میں ریلیز ہوئی فلم ’بازی‘ میں کام کیا۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس آرکائیو)

گیتا دت نے او پی نیر کی 22 فلموں کے لیے مجموعی طور پر 62 گیت گائے، جن میں 35 سولو جبکہ 27 ڈوئٹ گائے جن میں سے 22 محمد رفیع اور پانچ آشا بھوسلے کے ساتھ تھے۔
ذکر او پی نیر کو بریک تھرو دلانے کا ہو رہا تھا تو یہ گیتا دت ہی تھیں جنہوں نے فلم ’آسمان‘ کے دوران جب ان کی موسیقی سنی تو وہ بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے اپنے ہونے والے شوہر گورو دت کی فلم ’باز‘ (1953) کے لیے او پی نیر کا نام تجویز کیا۔ سب جانتے ہیں کہ گورو دت کی اگلی فلم ’آر پار‘ کی زبردست کامیابی نے او پی نیر کے کیریئر کو حقیقت میں اُڑان دی۔ اس لیے او پی نیر کے پاس گیتا دت کا شکر گزار ہونے کے لیے بے شمار وجوہات تھیں۔
گرو دت اور گیتا دت بالی وڈ کا ایک مثالی جوڑا تھا مگر وہ کیا وجہ ہوئی کہ دونوں کی محبت کا المیہ انجام ہوا۔ گرو دت کی بے وقت موت پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر گیتا دت کی زندگی بھی کسی المیے سے کم نہیں تھی۔ دونوں کی پریم کہانی اس وقت شروع ہوئی جب دیو آنند نے اپنی فلم ’بازی‘ کی ہدایت کاری کے لیے اپنے دوست گرو دت کا اتنخاب کیا جو پہلی ہی نظر میں گیتا دت کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔
گرو دت اور گیتا مئی 1953 میں شادی کے بندھن میں بندھے۔ ان کی ازدواجی زندگی کے ابتدائی تین برس محبت سے بھرپور تھے۔ ان کا پہلا بیٹا ترون سنہ 1954 اور دوسرا بیٹا ارون سنہ 1956 میں پیدا ہوا۔
گرو دت کی بہن لالیتا لاجمی نے ان دونوں کی پریم کہانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے اپنی شہد جیسی آواز کے علاوہ اُس (گیتا دت) کی خوبصورتی نے بھی حیران کر دیا۔ وہ اجنتا کے فریسکو کی طرح نفیس، سانولی اور حسین تھی، گورو دت اور وہ جلد ہی ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔‘

گیتا نے شادی کے بعد بتدریج دوسرے ہدایت کاروں کے لیے گانا ترک کر دیا اور مکمل توجہ گورو دت کی فلموں پر مرکوز کر دی۔ (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)

لالیتا کے مطابق ’ان کا رشتہ تقریباً تین برس تک محبت بھری منگنی کی طرح چلتا رہا۔ وہ میرے توسط سے خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ ایک پورے چاند کی رات، اس کے بنگلے کی بالکونی میں، اُس (گیتا دت) نے میرے روبرو اعتراف کیا: ‘میں تمہارے بھائی سے شادی کرنے والی ہوں۔‘
گیتا دت کے خاندان کو اس شادی پر اعتراض تھا مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
شادی کے بعد وہ کرائے کے ایک فلیٹ میں منتقل ہو گئے۔ گیتا نے بتدریج دوسرے ہدایت کاروں کے لیے گانا ترک کر دیا اور مکمل توجہ گورو دت کی فلموں پر مرکوز کر دی۔ ان دونوں نے ساتھ مل کر فلموں ’بازی‘، ’آرپار‘،’مسٹر اینڈ مسز 55‘، ’ سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘، ’کاغذ کے پھول‘، ’صاحب بیوی اور غلام‘ اور ’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ کے لیے بہترین گیت گائے۔ یوں گرو دت کی کامیابی میں گیتا دت کا اہم کردار رہا مگر ان دونوں کے رشتے میں اس وقت دراڑ پیدا ہو گئی جب 50 کی دہائی کے اوآخر میں گرو دت کے اداکارہ وحیدہ رحمان کے ساتھ افیئر کی خبریں منظرِعام پر آئیں۔
لالیتا لاجمی نے کہا تھا کہ ’جلد ہی کئی مسائل پیدا ہو گئے، جن میں اناؤں کا ٹکراؤ اور شاید دل دُکھنے کا احساس بھی شامل تھا، جس نے گیتا کو بہت زیادہ پریشان کیا۔ ان کی شادی کے 11 برس طوفانی رہے۔ دونوں فنکار کے طور پر شاندار تھے، لیکن ایک شادی شدہ جوڑے کے طور پر دونوں میں مستقل جھگڑے رہتے۔ گیتا ہر اس اداکارہ پر شک کرتیں جن کے ساتھ وہ کام کرتے۔ وہ ہر وقت اُن پر نظر رکھتیں۔ یہی اُس کی واحد کمزوری تھی۔ دونوں میں جھگڑا ہوتا تو گیتا دت بچوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر چلی جاتی۔ وہ اُسے واپس آنے کے لیے مناتے رہتے۔‘

دونوں کے رشتے میں اس وقت دراڑ پیدا ہو گئی جب 50 کی دہائی کے اوآخر میں گرو دت کے اداکارہ وحیدہ رحمان کے ساتھ افیئر کی خبریں منظرِعام پر آئیں۔ (فائل فوٹو: دی ہندو)

کیا گرو دت اور گیتا دت کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں کی وجہ سے گرو دت نے خودکشی کی یا اس کی وجہ وحیدہ رحمان تھیں؟ لالیتا لاجمی اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں کہ ’انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ ان دونوں خواتین میں سے کسی کی وجہ سے نہیں کیا۔ وحیدہ اور گورو دت پیشہ ورانہ طور پر کافی پہلے ہی ایک دوسرے سے الگ ہو چکے تھے۔‘
گیتا، گورو دت کی موت پر ٹوٹ گئیں اور بنگالی روایت کے مطابق ایک برس تک سفید لباس زیبِ تن کرتی رہیں۔ انہوں نے بیوہ ہونے کے ناتے 10 دن تک کانجی (چاول کا دلیا) پر اکتفا کیا اور اپنا غم مٹانے کے لیے مے نوشی میں پناہ لی جبکہ وہ مالی مشکلات کا شکار بھی ہو گئی تھیں۔
لالیتا لاجمی نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ کثرتِ مے نوشی کی وجہ سے جگر کی سوزش کے مرض میں مبتلا ہو گئی۔ اُس اُداس شام (20 جولائی 1972) جب اس نے اپنی آخری سانس لی، وہ منظر مجھے آج بھی یاد آتا ہے اور دل دہلا دینے والا ہے۔‘
’وہ بے ہوش تھی اور جسم پر ٹیوبیں لگی ہوئی تھیں۔ ناک اور کانوں سے خون بہہ رہا تھا، یہاں تک کہ دیواروں پر بھی چھلک گیا۔ یہ دیکھنا دل خراش تھا کہ ہماری گیتا، جس سے میں محبت کرتی تھی اور جو مجھ سے یکساں محبت کرتی تھی، اس قدر دردناک موت کا شکار ہوئی۔‘
گرو دت 10 اکتوبر 1964 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف 39 برس تھی۔ گیتا کو جب موت نے آ لیا تو وہ صرف 42 برس کی تھیں۔ انہوں نے غالباً اس روز ہی جینے کی امید چھوڑ دی تھی جب ان کے محبوب گرو دت نے اپنی جان لی۔

گیتا دت کو جب موت نے آ لیا تو وہ صرف 42 برس کی تھیں۔ (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)

ان دونوں کی ایک صاحب زادی نینا بھی ہیں جو گرو دت کی وفات سے دو برس قبل 1962 میں پیدا ہوئیں۔
گرو دت اور گیتا دت دونوں ہی بے وقت اور جواں موت مرے۔ وہ زندہ رہ سکتے تھے، کچھ مزید برس، کچھ مزید تخلیق کر سکتے تھے مگر شاید انہوں نے ان چند برسوں میں ہی کئی صدیاں جی لی تھیں۔

 

شیئر: