Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقیت کی پروردہ،نسوانیت کا مرقع،شمیم آرا

 
 ” آج کی فلمیں خاندان کے افراد کیا، میاں بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے“
ابوغانیہ۔جدہ
پاکستانی ناظرین کو ”سالگرہ، نائلہ، لاکھوں میں ایک،صاعقہ“ اور ایسی ہی بے مثال فلمیں دینے وا لی شمیم آراءکو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک برس مکمل ہوگیا ۔ آج شمیم آراءکی فنی زندگی کے بارے میں سوچنے بیٹھے تو ذہن میں ”بزمِ رفتگاں“ بپا ہوگئی ۔چشمِ تصورنے ایسے ایسے مناظر دیکھ لئے جو دورِ حاضر میں کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔اسکا سبب یہ ہے کہ : 
وہ دور تھا ماضی کا جس میں شدت تھی نہ تشدد، چالاکی تھی نہ بے باکی،بے حیائی تھی نہ بے پروائی، ٹارگٹ کلنگ تھی نہ بجلی کی اوور بلنگ،قتل و غارت کا بازار گرم تھا اور نہ قانون کسی کے لئے سخت اور کسی کیلئے نرم تھا۔ اُس دور میںخواتین کی اکثریت مستور ہوتی تھی۔ہر لڑکی گھر میں اپنی خوشی سے رہتی تھی، نہ کہ مجبور ہوتی تھی۔ کوئی لڑکا جب شادی کی عمر کو پہنچتا اور اپنا گھر بسانا چاہتا تو وہ دلہن تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے کالج کی چھٹی کے اوقات معلوم کرتا اور پھروقت کی انتہائی پابندی ملحوظ رکھتے ہوئے گلی کے نکڑ پر جا کھڑا ہوتا۔ وہاں سے گزرنے والی کالج کی لڑکیوں میں سے اسے جو پسند آتی اس سے تحریری رابطے کی کوشش کرتے ہوئے علیک سلیک پر مشتمل کاغذ کا ٹکڑا شاخ دار گلاب کے کانٹے میں پرو کر اس کے قدموں میں ڈھیرکرتا۔ وہ اسے اٹھا کر پڑھتی اور جواباً تڑخ کر کہتی ، بد تمیز انسان تمہارے گھر میں بہنیں نہیں ہیں؟ وہ جواب دیتا کہ جی ہاں3بہنیں ہیں وہ سب کی سب چونکہ کالج میں ہی ہیں اس لئے وہ بھی مختلف گلیوں کے نکڑوں پر شادی کے خواہشمندکسی” مظلوم نوجوان“ کو آپ ہی کی طرح بے عزت کرنے میں مشغول ہوں گی۔
فلمیں چونکہ معاشرتی روایات و ثقافت کی عکاس ہوتی ہیں اس لئے اُس دور میںجو فلمیں بنتی تھیں ان میں ویلن کہلانے والی ہستی آج کے ہیرو سے زیادہ معصوم ہوتی تھی۔ وہ بے چاراگلے میں ریشمی رومال ڈالے، اورنگی ہیئر آئل سر میں اچھی طرح چپڑ کرکنگھی سے بالوں کو جمائے ، ناک پر رنگین چشمہ بٹھائے، ہونٹوں میں سگریٹ دبائے سڑک کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور کسی نازنین کو دور سے آتا دیکھ کر 
ریشمی رومال گلے سے اتار کر جھاڑتا اور دوبارہ گردن کے گرد لپیٹ لیتا ۔ اس کی یہ حرکت اُس نازنین کوآج کے ایس ایم ایس سے کہیں زیادہ موثر قسم کا خاموش پیغام ارسال کرتی اور وہ سڑک پر ہی اپنی ڈھائی انچ اونچی ایڑی والی جوتی اُتار کر اس ویلن پر برسانا شروع کر دیتی۔ وہ معافیاں مانگتا ، لوگ اکٹھے ہوجاتے ، پولیس آتی اور اس بے زبان ، نوجوان کولے جا کرحوالات میں بند کر دیتی۔
اُس زمانے کی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے مابین روابط بھی عکسبند کئے جاتے تھے مگر ان میں ایک بہت بڑا اور واضح فرق یہ ہوتا تھا کہ ماضی کی فلموں میں ہیرو ہیروئن ایک دوسرے سے شخصی طورنامناسب حد تک دور مگر دلی طور پرحیرت انگیز حد تک قریب ہوتے تھے جبکہ آج کی فلموں میںہیرو ہیروئن ایک دوسرے سے شخصی اعتبار سے نامناسب حد تک قریب اور دلی طور پر حیرت انگیز حد تک دور ہوتے ہیں مثلاً پرانی فلموں میں ذاتی طور پر نامناسب حد تک دور ہونے کے باعث ”فاصلاتی اظہار محبت“کرنا پڑتا تھا۔ اس کے لئے ٹیلی فون کا استعمال ناگزیر ہوتا تھا جیسے لالی وڈ کی فلم ”احسان“ میں وحید مراد، بستر پر دراز ہو کر فون ملاتے ہیںاور اسپتال میں مریضوں کے معالجے میں مصروف ہیروئن زیبا کوموسیقی کے جلو میںاپنے جذبات نظم کر کے یوں باور کراتے ہیں کہ:
اک نئے موڑ پہ، لے آئے ہیںحالات مجھے
دل نے جو مانگی، وہی مل گئی سوغات مجھے 
اس کے برخلاف آج کے ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے کو ”ہاتھ کے ہاتھ“ اپنے انتہاءپسندانہ احساسات سے بے دریغ انداز میں آگاہ کرتے ہوئے بالی وڈ کی ایک فلم میں یوں کہتے ہوئے کچھ کچھ سنائی اور بے انتہاءدکھائی دیتے ہیںکہ:
”بلو رانی کہو تو ابھی جاں دے دوں“
آج کی لا لی ، بالی یا ہالی وڈ فلموں کا موازنہ کیاجائے تو پاکستان کی پرانی فلمیں واقعتا ایسی ہوتی تھیں کہ خاندان کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے مگر آج کی فلمیں...... ان کی اصلیت اور حقیقت بیان کرنے کے لئے صرف ا یک جملہ کافی ہے کہ” آج کی فلمیں میاں بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔“
پرانی فلموں کی کیا بات ہے ۔ لالی وڈ یعنی پاکستان کی فلموںمیں شمیم آرائ، نیر سلطانہ اور بالی وڈ یعنی ہندوستان کی فلموں میں مینا کماری ایسی ہستیاں تھیںجو مشرقیت کی پروردہ اور نسوانیت کا مرقع تھیں۔ شمیم آراءتو شکلاً، عملاً حتیٰ کہ ”فلمن“بھی مشرقیت مجسم تھیں۔ شلوار قمیص اور تین گز کا دوپٹہ، اکثر فلموں میں انکا پہناوا ہوا کرتا تھا۔وہ ہیرو سے اظہار محبت اور یہاں تک کہ ”چلبلے نغمے“ کے دوران بھی سر سے دوپٹہ سرکنے نہیں دیتی تھیں۔وہ فلموںمیں مشرقی خواتین کے احساسات، جذبات ، حالات، اوقات اور خیالات کی حرف بہ حرف ترجمانی کرتی تھیں اسی لئے وہ اکثر فلموں میں مظلوم و محروم، مجبور و بے قصور،بے چین و بے قرار،بے یار و مددگار،بے زبان و بے امان ہی نظر آتی تھیں۔وہ دخترانِ مشرق کی وفا اور شریک حیات کی جفا پر مبنی حقائق کو پردہ¿ سیمیں پر پیش کر کے معاشرے کو آئینہ دکھاتی تھیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں مظلوم گرہستنوں کی کوئی کمی نہیں۔ اس حوالے سے دوشعر نذر ہیں:
ہیں بہت مجبور کیوں مشرق کی ساری لڑکیاں 
چار دن کے چونچلے اور عمر بھرکی جھڑکیاں
گھٹ کے رونے کی اجازت دی ہے یوں سرتاج نے
جائے نہ آواز باہر ، بندرکھو کھڑکیاں
اُس دور میں طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ فعل قرار دیاجاتا تھااسی لئے کہیں طلاق ہوجاتی تو اسے ”سانحہ“ قرار دیاجاتا، اس پر فلمیں بنتیں، شمیم آراءاس میں مظلوم ہیروئن کے طور پر نظر آتیں۔ خواتین جوق درجوق اس فلم کو دیکھنے کے لئے سینماجاتیں حتیٰ کہ ہفتے میں ایک یا دو دن کے لئے بعض سینماوںکو صرف خواتین کے لئے مختص کر دیا جاتا۔ وہ فلم دیکھتے ہوئے دہاڑیں مار مار کر روتیں اور شمیم آراءکی دل و جان سے حمایت کرتیں۔ آج کی فلموں میںحالت یہ ہے کہ واٹس ایپ یا ایس ایم ایس پر اطلاع بھیج دی جاتی ہے کہ ”میں نے آپ کو طلاق دے دی ہے“۔
لالی وڈ کی بعض” شمیم آرائی“ فلموں میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہیروئن کے چہرے پر”ہاف ٹائم “ سے پہلے تک نقاب رہتا تھا، جسے دیکھ کر ہیرو کا موڈ خراب ہوجاتا تھا۔ہیروئن کی آستین پوری ہوتی تھی اور ٹخنوں سے نیچے تک شلوار بھی ضروری ہوتی تھی۔ وہ گھر سے اسی وقت نکلتی تھی جب کوئی مجبوری ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ برقع پہن کر گھر سے باہر جاتی تھی اوراپنی شکل ہر کس و ناکس کو نہیں دکھاتی تھی البتہ ہیرواگر راستے میں مل جاتا تو اسے دیکھ کر اپنا چہرہ کھولتی تھی اورمدعا بیان کرنے کے لئے مختصر مگر جامع جملہ بولتی تھی۔
لالی وڈ کی اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آرا ء1938ءمیں علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام پتلی بائی تھا ۔ان کی پہلی فلم ”کنواری بیوہ“ تھی جسے باکس آفس پر کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی ۔ اس کے بعد انہیں مختلف قسم کے کردار ملتے رہے بالآخر 1960 ءمیں شمیم آرا ءنے فلم’ ’سہیلی“ میں نگار ایوارڈ حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے 80 سے زیادہ فلموں میں کام کیا جن میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم ”نائلہ “ شامل ہے۔شمیم آراءکی چند مقبول فلموں میں ”دیوداس،صاعقہ،لاکھوں میں ایک،انارکلی،چنگاری،فرنگی،دوراہا،منڈا بگڑا جائے“ شامل ہیں۔
وحید مراد کے ساتھ شمیم آراءکی جوڑی کو شائقینِ فلم میں بے حد پذیرائی ملی۔ فلم’ ’قیدی“ میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ انہی پر فلمائی گئی تھی جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔شمیم آراءکی پہلی شادی سردار رند سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد انہوں نے دو اور شادیاں کیں لیکن دونوں زیادہ دیر نہیں چل سکیں البتہ اسکرپٹ رائٹر دبیر الحسن سے ان کی چوتھی شادی آخر تک چلی۔1989ءکی پنجابی فلم ”تیس مار خان“ شمیم آراءکی بطور اداکارہ آخری فلم ثابت ہوئی جس کے بعد انہوں نے ہدایت کاری کے میدان میں قسمت آزمائی کی اور ”جیو اور جینے دو،پلے بوائے،مس ہانگ کانگ اورمس کولمبو“ جیسی فلمیں بنائیں۔شمیم آرا ءکو پاکستان کی پہلی کامیاب خاتون ہدایت کارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے اداکاری میں 6 اور ہدایت کاری میں 3 نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ شمیم آراءطویل علالت کے بعد78 برس کی عمرمیں 5 اگست 2016 ءکو لندن میں انتقال کر گئی تھیں۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: