Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاک امریکا تعلقات سُدھر پائیں گے؟

امریکہ نے پاکستان کوگرے لسٹ میں ڈال دیا ہے جس کا مطلب ہمارے گرد گھیرا تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں ، واشنگٹن کے تازہ ترین بیان کی ٹائمنگ غور طلب ہے
صلاح الدین حیدر ۔ بیوروچیف۔۔ کراچی
پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلق 50کی دہائی میں تو تروتازہ بلکہ گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھے لےکن سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں کے باوجود دباﺅ کا شکار ہوگئے اور اب تو کسی شاخِ نازک سے لٹکتے نظر آتے ہیں جو ہوا کے ہلکے جھونکے سے بھی ٹوٹ کر گر پڑے۔ بظاہر تو ےہی صورتحال ہے، اور اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو صدر ڈونل ٹرمپ اس کے موجد کہلائے جاسکتے ہیں۔اوّل دن سے ہی انہوںنے اسلامی ممالک کے خلاف طبل جنگ بجایا، گو کہ پاکستان کو اس فہرست سے جدا رکھا لےکن آہستہ آہستہ کھلی دھمکیوں پر آگئے اور اب بھی وہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہی سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ہر سطح پر، وزیر اعظم ، سے لے کر ، وزیر دفاع،سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ تک نے بار بار واشنگٹن کو اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش کی،لےکن نتیجہ وہی دھان کے تین پات۔ اور اب تو نوبت ےہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ پاکستان کو(گلوبل ٹیرریسٹ فائنسنگ ) global terrorist financingکی گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے، جس کا مطلب ہمارے گرد گھیرا تنگ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ 
وزیر اعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دنیا کو ہم نوا بنا نے کی کوشش کی تو ہے، خود ان کے مطابق وہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس سے رابطے میں ہےں کہ کیسے یکطرفہ طریقہ کار سے پرہیز کیا جائے۔ امید تو ےہی ہے کہ جرمنی اور فرانس ، دونوں یورپ کی بڑی طاقتیں ہیں، آزادانہ پالیسیاں بھی اختیار کرتی ہیں۔سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی طرح امریکہ کی جا اور بے جا بات پر کان نہیں دھرتیں، انہیں اپنا مفادعزیز ہے، انہیں سیاسی اور تجارتی تعلق دنیا سے استوار رکھنے ہیں لےکن پھر بھی امریکہ جیسی طاقت کے آگے اگر کوئی جھک جائے تو کچھ عجیب بھی نہیں ہوگا۔
واشنگٹن کے تازہ ترین بیان کی ٹائمنگ بھی غور طلب ہے۔ صرف دو روز پہلے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کابل میں ہونے والی ملٹری کانفرنس میں امریکی جرنیلوں اور کئی دوسرے ممالک کے سرکاری ماہرین کے ساتھ گفت و شنید کرتے رہے۔ اعلانیہ بھی بہت ہمت افزاءکہا لےکن ماضی کی طرح اس بار بھی مذکرات ختم ہوتے ہی افغانستان نے نظریں پھیر لیں۔ اسے امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے کہ نہیں ۔ علم غیب تو نہیں رکھتا لےکن تاریخ کے تناظر میں ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے، کہ افغانستان جوکہ اب بھی امریکہ کے زیرِ تسلط ہے ،واشنگٹن ، دہلی، اور تل ابیب کے ساتھ مل کر پاکستان کو دنیا سے علیحدہ کرنا چاہتاہے۔ 
چند روز پہلے ہی امریکہ نے پاکستان کو وارننگ دی کہ بہت ساری دہشت گرد تنظیمیں جو کہ پاکستان کی سر زمین کو استعمال کررہی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔اسلام آباد نے بارہا اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ ہماری سر زمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ حافظ محمد سعید جو کبھی ہندوستان کی جیل میں تھے، ان کی مثال دی جاتی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے پہلے تو انہیں نظر بندرکھا لےکن پچھلے اےک ہفتے سے ان کی تنظیم جماعت الدعوة کو غیر قانونی قرار دے کر تنظیم کے بینک اکاﺅنٹ تک منجمد کردئےے لےکن پھر بھی واشنگٹن کی تسلی نہیں ہوتی۔ بتا دیں کہ ہم کیا کریں، کس حد تک جائیں۔
جہاں تک ٹرمپ نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی، پاکستان نے اسے بھرپور طور پر ردکردیا۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ےہ بات صاف نظر آتی ہے کہ خود امرےکہ میں قائم شدہ مختلف محکمے اےک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے، سی آئی اے، کچھ کہتی ہے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کچھ کہتاہے، پینٹا گون جو کہ ملٹری سے ڈیل کرتاہے، اس کی پالیسیاں وائٹ ہاﺅس سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
بین ثبوت اس بات کا ےہ ہے کہ کئی ایک امریکی ملٹری جنرلوں نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی مخالفت کی ، ےہاں تک کہہ دیا کہ افغانستان میں امن قائم رکھنے کے لئے پاکستان کی دوستی اور حمایت کی سخت ضرورت ہے، اس کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ کچھ دن تو خاموشی رہتی ہے لےکن وہی مرغی کی اےک ٹانگ۔ا سلام آباد نے نیک نیتی سے اپنا بیانیہ پیش کردیا، مثالیں بھی دیں،لےکن کاش امریکہ کی سمجھ میں آجائے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: