Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر اعظم شاہد خاقان کا عہدہ بھی خطرے میں؟

  کراچی (صلاح الدین حیدر ) پاکستان کی عدالت عظمی نے اےک اور تاریخی فیصلہ سنایا جس کے تحت ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف پارٹی کی صدار ت سے بھی ہٹا دئےے گئے۔ ان کے تمام اقدامات جو انہوں نے 28جولائی 2017ءسے کئے تھے ، وہ سب کالعدم قرار دے دئےے گئے۔قانون کے ماہرین اور بیشتر مبصرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ3 رکنی بنچ کا فیصلہ ملکی سیاست میں دور رس نتائج کا حامل ہوسکتاہے۔ اےک بات تو سپریم کورٹ نے خود ہی اپنے مختصر فیصلے میں واضح طور پر کہہ دی کہ نواز شریف کے سینیٹ کی نشستوں کے لئے نامزد اُمید وار، جن کی تعداد 15ہے، اب نا اہل ہوگئے۔ دوسری بات جس پر بحث جاری ہے وہ موجود ہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے منصب اعلیٰ سے متعلق ہے۔دےکھنا ےہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم رہتے ہیں کہ نہیں چونکہ فیصلے پر عمل درآمد 28جولائی، 2017ءسے ہوگا اس لئے شاید شاہد خاقان عباسی کو بھی عہدے سے فارغ ہونا پڑے۔ فیصلے میں ےہ بات واضح اور غیر مبہم ہے کہ نواز شریف کے تمام تر اقدامات جو انہوں نے 28جولائی سے لئے تھے، وہ کالعدم ہوگئے۔ اب بحث اس بات پر جاری ہے کہ نواز شریف رات 12بجے کے بعدایک آرڈینس کے تحت جسے صدر مملکت ممنون حسین نے فوراًہی منظو ر کرلیا۔ اس لئے شاہد خاقان عباسی اس کے تحت آتے ہیں کہ نہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد شاہد خاقان نے نواز شریف کو ٹیلی فون کیا۔ باتیں کیا ہوئیں ےہ تو پتہ نہیں چل سکا لےکن عام خیال ےہی ہے کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں دریافت کیا ہوگا۔ سوال ےہ ہے کہ کیا مسلم لےگ ن اےک نیا وزیر اعظم لائے گی جو کہ حالات اور شواہد کے مطابق شہباز شریف ہی لگتے ہیں، انہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑے گا اور پھر حلف وفاداری ۔سوال ےہ بھی ہے کہ اگر شہباز شریف وفاقی دارالحکومت میں چلے جاتے ہیں تو پھر پنجاب کی صورتحال کو کون سنبھالے گا؟۔ کیا ن لیگ کسی اور کو وزیر اعظم بنائے گی۔ کیا مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ بنیں گی۔ ےہ سارے کے سارے سوالات ہیں جن کا جواب بہت گہرائی میں جا کر ڈھونڈنا پڑے گا۔فیصلہ 5 صفحات پر مشتمل ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار ، جسٹس عمر بند یال،اور جسٹس اظہار حسن، پر مشتمل بنچ نے2 اہم نکتے اٹھائے ہیں۔ اےک تو انہوں نے الیکشن کمیشن کو واضح ہدایات جاری کیں کہ ن لیگ کے وہ تمام 15امیدوار جو سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر نواز شریف کے دستخطوں سے نامز د کئے گئے تھے، وہ اب نااہل ہوگئے ۔بیرسٹر فروغ ن نسیم اور سابق ہائی کورٹ جج جسٹس رشید رضوی نے ےہی منطق پیش کی کہ وہ آزادامید وار وں کی حیثیت سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ الےکشن کمیشن کا موقف کیا ہوگا اس کا انتظار ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر الےکشن کمیشن کو نئے سرے سے الیکشن شیڈول جاری کرنا پڑے گا جس میں قواعد کے مطابق تین سے چار دن لگ سکتے ہیں۔ اس کے معنی ےہ ہوئے کہ سینیٹ کی 52نشستوں کے ا نتخابات میں دیر ہوسکتی ہے۔فی الحال تو یہ 3مارچ کو ہونے والے ہیں، اب دےکھیں کیا ہوتاہے۔ اس سے زیادہ اہم سوال موجود ہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے عہدے پر رہنے کاہے چونکہ فیصلے میں صاف طور پر لکھا گیا کہ اےک نااہل ہونے والا شخص پارٹی کی صدارت نہیں کرسکتا۔ججوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 28جولائی کے فیصلے کے مطابق اُسی تاریخ سے نواز شریف کے کئے گئے تمام اقدامات خودبخود ختم ہوگئے ان کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ۔کچھ اور بھی سوالات اہم ہیں۔2ضمنی انتخابات ، این اے120جس پر نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز 14000ووٹوں کی برتری سے منتخب ہوئیں پھر جنوبی پنجاب میں لودھراں میںن لیگ کے اقبال شیخ24000کی برتری سے منتخب ہوئے۔جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کیا ان کی کاغذات نامزدگی پر جس پر نواز شریف کے دستخط ہیں کیا وہ بھی کالعدم ہوجائےںگے پھر تو نئی صورتحال پےدا ہوجائے گی۔ ےہ ہیں وہ اہم سوالات جن کے جوابات کا لوگوں کو بے چینی سے انتظار رہے گا۔
مزید پڑھیں:نواز شریف پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل

شیئر: