Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت کو مزید گراوٹ سے روکنا ضروری

کراچی (صلاح الدین حیدر) اسٹیٹ بینک نے آخر کا وہی کیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ معیشت کی بدحالی کو پابندی سلاسل کرنے کے لئے سب سے پہلے شرح سود کو 6 فیصد سے بڑھا کر 7.5 فیصد کیا گیا تاکہ مہنگائی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے جن کو دوبارہ قابو کیا جاسکے۔ بلاسود نظام معیشت اسلامی شریعہ کے زریں اصولوں میں سے ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں جہاں اسلام اور دین کا ذکر خیر تو زور و شور سے ضرور ہوتا ہے لیکن محض لفاظی کی حد تک۔ مرض جب حد سے بڑھ جائے تو پھر سرجری یا آپریشن ہی واحدعلاج رہ جاتا ہے جس کا سہارا لینے پر نگراں حکومت کو مجبور ہونا پڑا۔ مرکزی بینک کے گورنر طارق باجوہ نے نئی مالی پالیسی جو3 مہینوں کے بجائے 2مہینوں تک ہی محدود ہوگی کا اعلان کرتے ہوئے معاشی پالیسیوں کا کچا چھٹا کھولتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ مقرر کردہ 6.2 فیصد ہدف سے کہیں دور یعنی 5.5 فیصد تک ہی رہے گی۔ اُنہوں نے تو اپنے فرائض منصبی سے مجبورہو کر کھل کر بات کرنے سے گریز کیا لیکن ماہرین کا تجزیہ یہی تھا کہ جانے والی (ن) لیگ کی حکومت نے اعداد و شمار کے جادو کی چھڑی کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو آج کل احتساب سے بچنے کی خاطر لندن میں دل کی بیماری کا بہانہ بنا کر عدالتوں میں حاضری سے بچنے کی سعی لاحاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی جگہ لینے والے مفتاح اسماعیل جنہوں نے (ن) لیگی حکومت کا آخری بجٹ مئی میں پیش کیا اور آج کل کراچی سے انتخاب لڑنے میں مصروف ہیں، نے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے، آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں کی بیساکھیوں کے سہارے چلانے کی ناکام کوشش کی۔ قوم کو منجدھار میں چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ ظاہر ہے وہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی قید سے آزاد ہونے میں خوشی محسوس کر رہے ہوں۔ اُن کے مطابق پاکستان ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی زرعی اور صنعتی پیداوار دونوں میں ہی مسائل کا شکار ہے۔ ملک میں پانی کا کال ہے۔ تربیلا، منگلا، راول، حب پانی ذخےرہ کرنے والے دوسرے بڑے ڈیمز سوکھ رہے ہیں۔ملکی معیشت کے جو اہداف مالی سال 2018-19 میں مقرر کئے گئے تھے، اُس میںمیں کافی کمی ہوئی ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی قیمتوں سے لے کر،اندرونی مہنگائی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ سارے کے سارے اہداف میں افسوس ناک کمی نظر آتی ہے۔ نجی اداروں میں قرضے 768 بلین کی لرزہ خیز حد تک جاچکے ہیں جن کی حد 14.8 فیصدکی خوف ناک حد تک بڑھ چکی، اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے، اسی لئے شرح سود بڑھانی پڑی تاکہ مہنگائی میں کمی آسکے۔ اس بات پر خوشی ہے کہ بیر ونی ترسیلات اور برآمدات میں اضافہ ہوا لیکن درآمدات اور برآمدات میں اضافہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے جو کہ معےشت کو ڈبو نے کے لئے کافی ہے۔ اس سے پہلے نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے پریس کانفرنس میں چند روز پہلے بغیر نام لئے جانے والی حکومت کو غلط معاشی پالیسیوں کو فروغ دینے کا مجرم ٹھہرایا تھا۔ روپے کی قیمت ڈالر اور دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں جس تیزی سے گری ہے، اُس نے ملکی معیشت کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔
 

شیئر: