Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی والوں کا موڈ کیا ہے؟

کراچی (صلاح ا لدین حیدر ) برسوں ،تقریباً ایک چوتھائی صدی یا اس سے بھی کچھ زیادہ ، کراچی آزادی کی فضا ءمیں سانس لے رہاہے۔ تاریخ کے آئینے میں دیکھیں تو بات اظہرمن الشمس ہے اس شہرقائد نے 3 بڑی پارٹیوں جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی میں اپنی 7قومی اسمبلی کی نشستیں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر رکھی تھیں، یعنی ہرجماعت کی 2،2 نشستیں۔1977کے الیکشن کی بات ہی نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔ اس میں تو اس وقت کے نامور لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ہی کراچی اور سندھ کے باقی ماندہ علاقوں کو ذاتی جاگیر سمجھ کر دھاندلی کی ۔نتیجہ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔بھٹو صاحب تختہ دار پر۔ جنرل ضیاءالحق کا11 سالہ طویل مارشل لاءکے بعد 1985میں غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ اس بری طرح سے ناکام ہوا کہ پھر کسی نے دوبارہ ایسی حرکت کی کوشش نہیں کی۔ 1988میں جمہوریت بحال ہونے کے ساتھ سب کچھ ڈرامائی طور پر بدل گیا تھا۔ یونیورسٹی اور کالجوں سے نکلے یا نکالے ہوئے نوجوان نے پہلے آل پاکستان اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن بنائی پھر اس کا قدبلند کرکے مہاجر قومی موومنٹ جیسی فاشسٹ سیاسی پارٹی بنا کر اسے ساحلی شہر کے اطراف گھومتا ہوا بے کراں مگر ساکت و جامد سمندر میں طلاطم پیدا کردیا۔ قتل و غارت گری بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان ، درجنوں کی تعداد میں روزکی ہلاکتیں،زندگی ایک عذاب بن گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ فوج اور اس کا ذیلی گروپ پاکستان رینجرز نے مارپیٹ کر،لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ ساحلی شہر میں امن کی فضا قائم کی۔ ظاہر ہے پہلے کی طرح جہاں صرف ایم کیو ایم ،جو بعدمیں متحدہ قومی موومنٹ بن چکی تھی، کا پھیلایا ہوا خوف وہراس غائب ہونے کی وجہ سے بہت ساری جماعتیں بلکہ تمام ہی جماعتیں جو الیکشن میں دلچسپی رکھتی ہیں، اب با آواز بلند لڑ رہی ہیں،اب تو سما ںہی کچھ اور ہے یہ ٹھیک ہے کہ کراچی جیسے اہم شہر کے ساتھ مردم شماری میں ایک سازش کے تحت نا روا سلوک کیا گیا۔نادرا جس کے پاس تمام اعداد وشمارہوتے ہیں، نے دو سال پہلے کراچی کی آبادی 2کروڑ 30لاکھ بتائی تھی، لیکن اس دفعہ مردم شماری نے اسے ایک کروڑ 49لاکھ کرکے نہ صرف کراچی کے رہائشیوں بلکہ تمام ملک کے لوگوں کو محوحیرت کردیا۔بہرحال 2002سے کراچی کی نشستیں 13سے بڑھ کر 20کردی گئی ۔اب مردم شماری کے بعد اس میں مزید ایک نشست مل گئی یعنی 21نشستیں۔اتنی بڑی تبدیلی کا اثر خوشگوار ہونے کے ساتھ ہی 3 بڑے نام تحریک انصاف کے عمران خان ، نون لیگ کے سربراہ شہباز شریف اور عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سیّد میدانِ میں نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے کسی مردِ مجاہد کو ایم کیو ایم کے سامنے پر مارنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمران خان نے پہل کی ۔ پچھلے ضمنی انتخاب میں انہوںنے ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد سے اپنا نمائندہ کھڑا کیا اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے ایم کیو ا یم کو زیر نہ کرسکے۔ آج کراچی کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔عمران خان کے لئے نسبتاً مقابلہ آسان ہوگا۔ پھر بھی کراچی والوں کے موڈ کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سب سے بڑا سوال یہی ہوگا کہ بغیر الطاف حسین کے انتخابات کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ بہرحال مصطفی کمال اور ان کی پاک سرزمین پارٹی کو حیدر آباد میں فقید والمثال استقبال ملا ، اور دوسرے ہی دن انہوںنے پہلے والا وعدہ دھرادیا کہ سندھ میں ہم حکومت کے شریک ہوں گے اور ہمارے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔اعتماد ہو سکتاہے رنگ لے آئے ۔ صرف 4 روز رہ گئے۔ 25جولا ئی کو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ کراچی میں الیکشن اس مرتبہ دلچسپی سے خالی نہیں ۔ 
 

شیئر: