Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت عظمیٰ: دہری شہریت کیس کا فیصلہ محفوظ

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی زیر سربراہی دہری شہریت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت عدالت عظمیٰ اسلام آباد میں ہوئی جہاں 3 رکنی بنچ نے ججز اور سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک وہ لوگ ہیں جو پیدا ہی بیرون ملک ہوئے جبکہ دوسرے وہ جو تعلیم حاصل کرنے گئے اور شہریت حاصل کی جبکہ تیسرے وہ جو دوران سرکاری ملازمت شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کیا تینوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے؟ اس موقع پر عدالت معاون شاہدحامد نے موقف اختیار کیا کہ 2002ءسے آج تک کسی پاکستانی کی شہریت منسوخ نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو غیر ملکی شہریت دلواتے ہیں تاہم سرکاری افسران کا دہری شہریت کا حامل ہونا ٹھیک نہیں۔ حکومت کو سیکورٹی سے متعلق مسائل پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ حکومت اور پارلیمان فیصلہ کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز اور اساتذہ کی دہری شہریت میں قباحت نہیں لیکن بعض عہدوں پر ملک سے مکمل وفاداری لازمی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک ساتھ دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پالیسی بنانے کا اختیار حکومت کو ہے۔ اراکین پارلیمان کے لیے دہری شہریت پر پابندی ہے تو بیوروکریٹس پر کیوں نہیں۔ بعدا زاں عدالت عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سرکاری افسران کی دہری شہریت پر حکومت کو سفارشات دیں گے اور اہم عہدوں پردہری شہریت کے حامل افراد سے متعلق تحفظات کا اظہار بھی کریں گے ۔
 
 

شیئر: