Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک و ہند اور افغانستان میں تعاون کی اہمیت

***صلاح الدین حیدر***
آج کل امریکہ کے افغانستان کے معاملے پر خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پاکستان میں ہمارے پڑوسی ملک میں امن کی اہمیت پر محو گفتگو ہیں، کسی نتیجے کی اُمید ہے یا نہیں، فی الحال تو کہنا مشکل ہے، اس لیے کہ افغانستان کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔امریکہ بار بار پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و امان کے معاملے پر مداخلت سے باز رہے، لیکن یہ محض عذر لنگ ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ پاکستان نے ہر ممکن اقدام کیا جو اس کے بس میں تھا۔ موجودہ اور سابق وزائے اعظم، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور حال ہی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل کا دورہ کرکے اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے بے شمار وضاحتیں پیش کیں۔ یہی نہیں، پاکستان نے اپنی سرحد کے اندر تاروں کی باڑ تک لگادی تاکہ کابل سے لوگ بلاوجہ پاکستان میں داخل ہوکر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے تو روزانہ 25 سے 30 ہزار افغانی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور پھر یہاں فوج کی گاڑیوں، سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی کے عملے پر حملہ آور ہوتے تھے۔ کابل کے حکمرانوں کو یہ بات باور کرانے کی پاکستان کی ہر کوشش رائیگاں گئی۔ امریکہ وہی پرانی راگنی الاپتا رہا کہ پاکستان کو مزید کچھ کرنا چاہیے، کیا کرنا چاہیے اس کی وضاحت نہیں کی جاتی۔ بال کی کھال کی کھوج لگانے کے لیے بہت سے افغانی پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے آباد ہیںاور باوجود مقدور بھر کاوشوں کے اپنے ملک واپس جانے کا نام نہیں لیتے، پھر خود افغان حکومت نے عجیب رویہ اپنا رکھا ہے کہ پاکستانی ابھی مزید کچھ عرصے ان 15 لاکھ افغانیوں کو اپنے یہاں رہنے دے، اس لیے کہ افغانستان کی معاشی صور حال اُن کا بوجھ اُٹھانے کی اہل نہیں لیکن آخر کب تک؟ اس سوال کا جواب نہیں دیا جاتا۔
افغانیوں سے بات چیت کے دوران عقدہ کھلا کہ جہاں اور بہت سے مسائل ہیں، وہیں افغانستان میں صحت عامہ کے وسائل بہت ہی محدود ہیں۔ دیوار طورخم یا بلوچستان کے سرحدی شہر چمن جو اسپن بولدک سے جڑا ہوا ہے۔اب بھی روزانہ 5/6 ہزار افغان مرد، عورتیں، بچّے امیگریشن قوانین کے تحت پاکستان میں آنے پر مجبور ہیں تاکہ وہ پشاور اور کوئٹہ کے صحت کے مراکز میں اپنا اور رشتے داروں کا علاج کرواسکیں۔ افغانستان میں ان سہولتوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ 
سوال پھر یہ اُٹھتا ہے کہ امریکہ وہاں پچھلے قریباً 40 سال سے یا تو سابق سوویت یونین کے خلاف لڑائی لڑتا رہا، یا پھر خود ہی وہاں اپنی افواج اُتار کے قبضہ جمالیا جو کہ آج تک قائم ہے۔ افغانستان کی پوری تاریخ ان حقائق سے تابندہ ہے کہ افغانیوں نے کبھی بھی بیرونی قبضہ قبول نہیں کیا اور حملہ آوروں کو مار بھگایا، تو پھر آج یہ کیوں 11 ہزار امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی ایک مثالیں دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں جس سے خاصی حد تک اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانی آخر پاکستان کیوں آتے ہیں۔ ایک3 سالہ افغانی بچّی ہادیہ، اپنے آبائی گھر مزار شریف سے 18 گھنٹے کی طویل مسافت طے کرکے بغرض علاج پشاور آنے پر مجبور ہوئی۔ اُس کا باپ 2017 میں اپنی کل کائنات یا جائیداد بیچ کر ہادیہ کو پشاور لے کر آیا ،اُس کی بیماری کا خاتمہ ہوسکے کہ مزار شریف میں دو سال کی جدوجہد کے باوجود ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کون سا باپ ہوگا جو اپنی گود میں کھیلتی ہوئی بچی کو تڑپتا دیکھتا۔ وہ لاچاری میں پشاور لے کر آیا جہاں اُس کے مرض کی نہ صرف تشخیص ہوئی بلکہ علاج بھی جاری ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جہاں افغانی اپنے ملک کو چھوڑ کر خیبرپختونخوا میں آکر پہلے سے رہائش پذیر رشتے داروں، دوستوں یا جان پہچان کے لوگوں کے گھر میں سکونت پذیر ہوتے اور کے پی کے یا بلوچستان کے ہسپتالوں میں علاج و معالجے کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
بالکل اسی طرح اچھی خاصی تعداد میں افغان ہندوستان جانے پر مجبور ہیں کہ وہاں کے ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کروایا جاسکے۔ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں صحت کی بہترین سہولتیں موجود ہیں۔ ہادیہ کا کیس ہی لے لیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ پاکستان آئی تھی تو ڈاکٹروں نے اُس کے علاج کا تخمینہ بہت زیادہ لگایا۔ مایوسی کے عالم میں بے چارہ خاندان مزار شریف لوٹ گیا، لیکن پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کو پریشانی لاحق تھی۔ اُس نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد اتنی بھاری رقم چندہ کرکے جمع کی اور پھر ہادیہ کے باپ کو اطلاع دی کہ وہ یہ رقم ہندوستان کے ایک معروف ہسپتال میں بھجوا کر اُس کی بیٹی کے علاج کا بندوبست کرسکتی ہے۔ پورا خاندان ہند گیا، رقم پاکستان اور ہندکے مخیر افراد نے چندہ کرکے فراہم کی، اب بچی کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے۔
پشاور کی ڈاکٹر ہما (جس نے یہ سارا بندوبست کیا تھا) نے دلّی میں اپولو ہسپتال کے گروپ ڈائریکٹر سے رابطہ کرکے علاج کی فراہمی یقینی بنائی۔اپولو کی انتظامیہ نے 28 لاکھ روپے خود خرچ کیے جبکہ پاکستان سے 35 لاکھ کی خطیر رقم باقاعدہ طور پر بھیجی گئی۔ ہندوستان کی حکومت نے انسانی خدمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ویزے کی سہولتوں میں آسانی کردی۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں تو پھر امریکہ، پاکستان، ہندوستان اور خود افغانستان کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں کیوں نہیں رینگتی۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ چاروں ممالک دوستی کا ہاتھ بڑھائیں، لڑائی جھگڑے ایک طرف رکھیں تاکہ خطے میں امن ہوسکے۔ بھائی چارہ بڑھے اور انسانیت کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکے۔ مجھے خود امریکہ جانے کا 20 سے زائد بار اتفاق ہوا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہاں قانون کے تحت امریکی شہری تو انشورنس کے ذریعے اپنے علاج کا بل لے لیتے ہیںلیکن اگر کوئی بیرون ملک سے آئے ہوئے ویزا پر ،اجنبی کوہسپتال کی ضرورت پڑے اور اُس کے پاس پیسے نہ ہوئے تو بھی کوئی بھی امریکی ہسپتال اُسے رقم کی کمی کی بنیاد پر بلاعلاج کیے واپس نہیں بھیج سکتا۔ اگر امریکہ میں انسانی حقوق کی اتنی اہمیت ہے کہ علاج کیے بغیر کوئی مریض گھرواپس نہیں بھیجا جاسکتا تو یہی اصول اپناکے امریکہ افغانستان میں ہسپتال بنا کر پیش رفت کیوں نہیں کرتا؟ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ چاروں ممالک مل بیٹھ کر ان باتوں پر غور کریں اور امن و سلامتی اور انسانی خدمت کی خاطرایک دوسرے کی مدد پر آمادہ ہوجائیں۔ ویزے کی سہولتیں آسان بنائیں جو کہ وقت کا تقاضا ہے۔ سیاسی معاملات کے اگر فوری طور پر حل ہونے میں دیر لگتی ہے تو انسانیت کو تو فوقیت دی جائے۔ کیا انسانیت اتنی مر گئی ہے کہ ہم لاشوں کے انبارسے اپنی انا کے قلعے بنانے کو دوسرے تمام اہم معاملات پر فوقیت دیں گے؟ سوال اہم ہے اور فوری توجہ کا طالب۔
 

شیئر: