Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امیر زادے کا جیل میں ٹھاٹ باٹ ختم

  کراچی (صلاح الدین حیدر)اردو کا ایک محاورہ جو بچپن سے سنتے آرہے ہیں، اونٹ رہے اونٹ تیری سی کل سیدھی۔یہی حال آج کل پاکستان کا ہے۔ جہاں ہر چیز پیسوں کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔، پولیس تو پہلے ہی سے بدنام تھی۔، حکومتی افسران نے بھی رنگ پکڑا۔ کوئی کام کرانے جاو، نوت دکھاو تو کام ہوگا ورنہ دفتروں کے چکر لگاتے رہو۔ پچھلے کئی برسوں سے سنتے آئے تھے کہ جیل کے اندر بھی مجرمان یا سزایافتہ لوگ، ہر قسم کی سہولیتوں سے آراستہ ہیں۔ٹیلیفون ان کے پاس ہیں۔سی کلاس ہو بھی کیا۔ ائیرکنڈیشن اور ٹیلی وژن جیل کی کال کوٹھری میں نصب ہیں۔جیل کے عملے کو ماہانہ پیسے مل جاتے ہیں۔ نشہ آور ادویات الگ میسر ہیں۔اللہ بھلا کرے چیف جسٹس کا وہ کراچی جیل جا پہنچے۔دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک سزا یافتہ نوجوان سی کلاس میں ائیرکنڈیشن اور ٹیلی وژن سمیت آرام دے گدے پر سویا ہوا ہے۔ جیلر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے، جواب ملا کہ سر بہت بڑے آدمی کے بیٹے ہیں۔اثر رسوخ اوپر سے آتا ہے۔ہمیں مجبوراً حکم ماننے پڑتے ہیں۔مجرم شاہ رخ ایک سرمایہ دار کا بیٹا ہے، اس نے کئی مہینے پہلے سرے عام معمولی لڑائی جھگڑے کے بعد قتل کر دیا۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جہاں امیروں کے لڑکے سزا کے بعد جیل میں بڑے آرام سے رہتے تھے، وہ سارا دن شہر میں دوستوں کے ساتھ عیاشیاں، گپ شپ اور رات اپنے آرام دہ محلات میں ، شاہ رخ خیر ایسا نہیں کر سکتا۔چیف جسٹس نے فوری طور پر حکم دیا کہ اسے کال کوٹھری میںڈال دیا جائے، حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔اسے ڈیتھ سیل میں منتقل کر دیا گیا کہ یہاں قید تنہائی میں باقی زندگی گزارے۔ کیا پتہ کہ کب دوبارہ وہ اپنے اثر رسوخ استعمال کر کے پھر سے عیاشی کی زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ااب اس کا کیا کیاجائے کہ مملکت خدا داد پاکستان میں اصول صرف کتابوں تک ہی محدود ہیں عملاً سب کچھ الٹا ہے۔
 

شیئر: