Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھرنا،مظاہرے ،حکومت کے خلاف سازش؟

کراچی(صلاح الدین حیدر)ایک ایسے وقت میں جب عمران خان بیرونی دنیا خاص طور پر سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات سے مدد حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں مصروف ہیں تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے، ملک میں کشیدگی، جلاو¿ گھیراو، زور زبردستی سے کاروبار بند کرانے کا سلسلہ پاکستانی کی نئی حکومت کے خلاف سازش سے کم نہیں تھا۔سپریم کورٹ کے ایک فیصلے، جس میں ایک بے گناہ خاتون کو باعزت بری کر دیا گیا، نے مخصوص گروپ کو سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔بظاہر تو تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا اور ملک بھر میں ہڑتال کی کال ختم نبوت کی شان میں گستاخی کے خلاف نظر آتا ہے تاہم اگر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بیانات، انٹرویوز اور پچھلے دو ہفتوں سے جاری سرگرمیوں پر نظرڈالی جائے تو دونوں میں کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور جھلکتا ہے۔صرف دو روز پہلے مولانا تیس سال کے بعد سیاست کے میدان میں چاروں شانے چِت نظر آئے۔ وہ بہت غصے میں دکھائی دیتے ہیں۔الیکشن میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن مولانا کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی، ان کا موقف ہے کہ عمران کو جانا ہی ہو گا۔ یہ حکومت نہیں چل سکتی۔ ملک ڈوب رہا ہے، میں وقت نہیں دے سکتا۔ 6مہینے تو بہت ہیں، اس حکومت کو تین ماہ میں گر جانا چاہئے۔ پوچھنے پر انہوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ عمران خود ہی بے وقوفیاں کر کے حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ پھر ہم یہ الزام کیوں اپنے سر لیں کہ ہم نے سازش سے اسے ہٹایا ہے۔ مولانا نے اس بات کو پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ ان کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں نے ہی اپنے وفود کانفرنس میں بھیجنے کا وعدہ کیا ہے تاہم مولانا خوش نظر نہیں آتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آصف زرداری نے کانفرنس میں شرکت کی حامی بھر لی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے سربراہ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ۔ یہ ضرور ہے کہ شہباز شریف نے تحریک انصاف کے وفد کو یقین دلایا ہے کہ وہ دھرنے کے نام پر تین دن سے ملک میں جو فساد کی فضا پھیلائی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف ہیں لیکن طاقت کے استعمال کی بھرپور مخالفت کریں گے۔دوسری طرف پیپلز پارٹی تحریک لبیک کے دھرنے کی سرے سے ہی خلاف ہے۔ جس کا اظہار بلاول بھٹو نے کھلے الفاظ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کر ڈالا کہ اگر وزیراعظم آج یہاں ہال میں موجود ہوتے تو میں ان سے بلا ججھک کہتا کہ قدم بڑھاو¿، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ عمران خان چین کے دورے پر تو چلے گئے لیکن اپنے بہترین ساتھیوں جن میں فیصل واوڈا، فواد چوہدری، عمران اسماعیل شامل ہیں، کو پیچھے چھوڑ گئے تاکہ ملکی حالات پر نظر رکھیں اور اسے سدھارنے کی کوشش کریں۔اس ساری کہانی میں گزشتہ روز جو ایک نیا رخ سامنے آیا ہے، وہ فوج کا بیان ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے صاف طور پرکہہ دیا ہے کہ ناموس رسالت پر ہماری جان قربان لیکن چونکہ عورت کی سزائے موت معاف کرنے کا حق سپریم کورٹ کو ہے تو پھر یہ قانون کے تحت حل ہونا چاہئے۔ اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں مگر افسوس کہ کچھ لوگوں نے فوج کو زبردستی اس جھمیلے میں گھسیٹا۔ وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آرمی اپنے کام میں مصروف ہے۔ اس کی توجہ اصل کام سے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور آرمی کی توجہ دائیں بائیں ہوئی تو پھر بات بگڑ بھی سکتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کی ایک اور بات جو کہ قابل توجہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے کوئی حکم صادر کیا تو آرمی چیف جو بھی حکمت عملی طے کریں گے، فوج اس پر پوری طرح عمل درآمد کرے گی۔خود عمران خان اور فواد چوہدری کے بیانات کو مدنظر رکھیں کہ ہم طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتے، لیکن ریاست کو کمزور نہ سمجھا جائے، ریاست کمزور نہیں ہے اور ہر طرح کے حالات سے بخوبی نمٹنا جانتی ہے، وہ اپنے فرائضسے غافل نہیں ہے۔ جلاو گھیراوکے واقعات زیادہ تر پنجاب کے دارالحکومت لاہور، اسلام آباد، اور گوجرانوالہ میں پیش آئے جہاں گزشتہ روز پورے دن کے لئے سیل فون سروس بند رکھی گئی۔ کراچی میں جو بھی کاروبار زبردستی بند کرائے گئے۔ سڑکوں پر سناٹا رہا۔دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں اور بینکوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔
 

شیئر: