Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ میں ملک ریاض کیخلاف کیس کیا ہے؟

کراچی (صلاح الدین حیدر ) ملک کے سب سے بڑے بلڈر ملک ریاض جنہوں نے معمولی آدمی کی حیثیت سے کام شروع کیا لیکن کمال ہوشیاری سے پاکستان نیوی یا بحریہ سے معاہدہ کر کے ان کے نام سے اپنے منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا۔ لاہور اور اب کراچی میں ان کی واہ واہ ہورہی ہے لیکن ساتھ ہی ان کی اصلیت کے بارے میں حقیقت کھلتی چلی جارہی ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جاپہنچا جہاں ان کے وکیل پر سوالات کی بوچھاڑ کردی گئی کہ آخر اتنی زمین ان کے پاس آئی کہاں سے؟ قیمت خرید بجا طور پر ادا کی گئی یا یہ بھی قبضہ مافیا کے زمرے میں گنا جائے گا؟ یہ بات تو اب زبان زدو عام ہے کہ ملک ریاض اب تو پتہ نہیں لیکن پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وہ صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ظاہر ہے کہ سندھ میں چونکہ زرداری مالک کل ہیں جسے بھی نوازنا چاہیں انہیں کون روک سکے گا؟ کس میں ہمت ہے کہ صدر مملکت جیسی ہستی سے ٹکرانے کی کوشش کرے؟ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر پہلے بھی ایک قابل ذکر فیصلہ دیا تھا کہ ملیرڈیولپمنٹ اتھارٹی جس کے پاس کراچی کے مضافات میں وسیع و عریض قطعہ زمین ہے۔ اس کا بہت بڑا حصہ ملک ریاض کے حوالے کردیا گیا۔ وثوق سے کہنا تو مشکل ہے، لیکن ماضی قریب کے قصے کہانیاں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات عام طور سے کہی جاسکتی اور اس میں کچھ نہ کچھ تو صداقت ہے کہ ایسا کرنے میں زرداری کا بہت اہم رول ہے۔ جسٹس عظمت سعید جن کے پیش نظر یہ اہم کیس زیر سماعت ہے اس بات پر حیران ہوگئے کہ ان کے آگے 3 قسم کی دلیل پیش کی گئی گو کہ ملک ریاض کا اب بحریہ سے معاہدہ عرصہ درازہوئے ختم ہوگیا لیکن وہ آج بھی بحریہ کے نام سے کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں۔ ملک ریاض کے وکیل نے انہیں بتایا کہ بحریہ ٹاون (پرائیویٹ لمیٹڈ) کمپنی کے پاس 18000 ایکڑ زمین موجود ہے۔ ملک ریاض کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے مطابق ملک ریاض کے پاس 18336 ایکڑ اراضی ہے جس میں 7068 ایکڑ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے جو کہ سرکاری ادارہ ہے کسی خاص انتظام کے تحت حاصل کی گئی تھی۔ وہ خاص انتظامات کون سے ہیں اور کیسے اختتام پذیر ہوئے۔ ان کی تفصیلات ابھی نہیں پیش کی گئی۔ سارا قضیہ تو یہی ہے کہ ایک سرکاری ادارے کی زمین جو کہ عوام الناس کی رہائش کے لئے دی جانے والی تھی، وہ ایک نجی کمپنی کو کیسے دے دی گئی۔ 4 مئی کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین ملک ریاض کو دینے کو رد کردیا تھا اس لئے کہ مروجہ قوانین کے خلاف تھا۔ جسٹس عظمت جو کہ 3 ممبران کے سربراہ کی حیثیت سے کیس کی سنوائی کررہے ہیں سوال کیا کہ یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے کیسے اور کیوں یہ زمین ایک نجی ادارے کے سپرد کی؟ اس کا جواب اب تک نہیں ملا۔ جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاون کو ہدایات کی کہ وہ نیب کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرے۔ بحریہ ٹاون کو جان لینا چاہیے کہ اس کے مضمرات کیا ہوں گے۔ ملک ریاض کے بارے میں اور بھی بہت کچھ سننے میں آتا ہے۔واللہ عالم بالصواب۔
 

شیئر: